8 September, 2024


دارالاِفتاء


جماعت اصلاح قوم مسلم سنبھل نے اصلاحِ عوام و خواص مسلمین کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے، مقصد قوم میں در آئی برائیوں کو دور کرنا ہے۔ فی الحال عقد نکاح کی تقریبات میں باجا، گانا، بھانگڑا وغیرہ پر کنٹرول کرلیا ہے۔ مقامی علماے کرام بھی اپنا تعاون دے رہے ہیں، البتہ بعض نکاح خواں علما نفس نکاح ہونے کی آڑ میں اور اپنے نذرانے کی لالچ میں اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جب کہ جماعت کا کہنا ہے کہ نکاح پڑھانافرض عین، فرض کفایہ، یا واجب تو نہیں، آپ کے نہ جانے سے برات میں غیر شرعی امور کی رسم ختم ہوتی ہے، جیسا کہ اکثر جگہ براتوں میں باجا وغیرہ بند ہی ہوگیا۔ واضح رہے کہ ان علما کا باجے کی حرمت میں یا عوام و خواص کی شرکت کے ناجائز ہونے میں اختلاف نہیں۔ قاضی شرکت کو جائز نہیں سمجھتا، بلکہ اپنے نذرانے کی وجہ سے نکاح پڑھا دیناچاہتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسے قاضی عالم کا شرعی حکم کیا ہے؟بے رو رعایت حق بات صاف صاف تحریر فرمائیں کہ ان کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی، یا بلا کراہت جائز ہے؟ بینوا تؤجروا۔

فتاویٰ #1728

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- جس شادی میں باجا، بھانگڑا،ناچ، ڈانس، شراب نوشی وغیرہ بےحیائی کی باتیں ہوں اس میں شرکت، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں،خصوصاً علما، حفاظ، ائمۂ مساجد کو۔ اگرچہ ایسے وقت جائے کہ کوئی ممنوع شرعی وہاں نہ ہو، خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ مسلمانوں کی ایک تنظیم نے ان حرام اور فواحش کو ختم کرنے کے لیے یہ تحریک چلا رکھی ہے کہ شادیوں میں یہ محرمات نہ ہونے چاہیے۔ اور جن شادیوں میں یہ محرمات ہوں، ان میں کوئی مسلمان شریک نہ ہو۔ مسلمانوں کی اس تجویز کے بعد جو بھی ایسی شادی میں شرکت کرے، جس میں کسی حرام کا ارتکاب ہووہ فاسق معلن ہے، اگرچہ ایسے وقت شرکت کرے جب یہ چیزیں بند ہوں، اگرچہ نکاح پڑھانے کے لیے جائے۔ اولاً: اس لیے کہ سواد اعظم اور مسلمانوں کی جماعت سے اختلاف اور بغاوت ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا: اتَّبِعُوا السَّوَادَ الأَعْظَمِ ؛ فَإِنَّ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ ۔ سواد اعظم کی پیروی کرو؛ اس لیے کہ جو سواد اعظم سے الگ ہوا، وہ جہنم میں گیا۔ ثانیاً: اس لیے کہ ہر مسلمان پر بقدرِ وُسعت حرام کے ارتکاب کو روکنا واجب ہے۔ ارشاد ہے: وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ ۔ ضرور تم میں کچھ لوگ ایسے ہونے چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کا حکم کریں، برائی سے روکیں۔ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَنْ رَأَی مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْہُ بِيَدِہِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ ۔ جو مسلمان کوئی بری بات دیکھے تو اس پر واجب ہے کہ ہاتھ سے روکے، اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اسے دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جتنی اسے استطاعت ہو، برائیوں کو روکے۔ اور ظاہر ہے کہ اتنی استطاعت ہر مسلمان کو ہے کہ ایسی شادیوں میں شرکت نہ کرے۔ اگر حریص، لالچی مُلّے، نکاح پڑھانے نہ جائیں تو یہ طے ہے کہ بڑے سے بڑا مغرور بھی شادیوں میں محرمات اور فواحش نہ لائے۔ جو لوگ جماعت کی پابندی کے باوجود نکاح پڑھانے جاتے ہیں وہ ارشاد رسول کی خلاف ورزی کی وجہ سے فاسق معلن ہیں۔ ثالثاً: یہ اِعانت علی الاثم [ گناہ پر مدد] بھی ہے، نیز مسلمانوں میں انتشار پھیلانا بھی ہے، اس لیے بھی یہ لوگ فاسق معلن ہیں۔ ارشاد ہے: وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۔ گناہ اور سرکشی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ جن شادیوں میں محرمات شرعیہ ہوں، وہاں نکاح پڑھانے کے لیے جانے والے ایک نہیں تین تین وجہ سے فاسق معلن ہیں، تو ان لوگوں کو امام بنانا گناہ، ان کے پیچھے نماز پڑھنی گناہ، جتنی نمازیں ان کے پیچھے پڑھی گئی ہیں، سب کا اعادہ واجب۔ غنیہ میں ہے: لَوْ قَدَّمُوا فَاسِقاً یَّاثمُوْنَ بِنَاءً عَلَیٰ أَنَّ کَرَاھَۃَ تَقْدِیْمِہٖ کَرَاھَۃُ تَحْرِیْمٍ ۔ در مختار میں ہے: كُلُّ صَلَاۃٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاھَۃِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُھَا ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved