8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید نے بیتر گڑھ کی جامع مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’امام صاحب فرماتے ہیں کہ جن نمازیوں کی پیشانی پر سیاہ داغ پڑ جاتا ہے، وہ داغ شیطان کے پیشاب سے بنتا ہے‘‘۔یہ امام صاحب ایک کنواری لڑکی سے زنا کرتے ہیں، اور وہ جب چار ماہ کی حاملہ ہوجاتی ہے تو اس سے نکاح کرلیتے ہیں، وہ لڑکی بحیثیت بدی ان کے ساتھ رہ جاتی ہے۔ یہی امام صاحب کچھ شرابی اور اوباش لوگوں کو مسجد میں بٹھاتے ہیں، اور اعتراض کرنے پر مسلمانوں کو دھکے دےکر باہر نکال دیتے ہیں۔ (۱) کیا نمازی کے پیشانی کے سیاہ داغ کو شیطان کا پیشاب بتانا جائز ہے؟ (۲) کیا ان امام صاحب کا نکاح، حاملہ لڑکی سے درست ہے؟ (۳) کیا شرابی اور اوباش قسم کے لڑکوں کو مسجد میں بٹھانا اور مسلمانوں کو مسجد سے بھگا دینا جائز ہے؟ کیا زید کو امام کی حیثیت سے مسجد میں رکھنا شرعاً جائز ہے؟ اور کیا اس کے پیچھے نماز درست ہے؟

فتاویٰ #1709

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) یہ، امام نے غلط کہا، یہ نشان بکثرت سجدہ کرنے سے پڑ جاتا ہے۔ یہ کہنا کہ شیطان کے پیشاب سے بنتا ہے، جہالت ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) کسی پر زنا کا الزام، قیاس سے لگانا حرام ہے۔ زنا کے ثبوت کا شرعی طریقہ صرف دو ہے۔ ایک: زانی کا اقرار، دوسرے: چار مرد عادل کی عینی شہادت۔ اس خصوص میں مزنیہ کا یہ کہنا کہ فلاں نے زنا کیا ہے، یا فلاں کا حمل ہے، بھی ناکافی ہے۔ حتی کہ قرآن مجید میں فرمایا: وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ۰۰۴ ۔ جو لوگ پاک دامن عورتوں (مردوں) پر زنا کی تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لائیں، انھیں اسّی کوڑے مارو۔ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ لوگ فاسق ہیں۔ آپ نے امام پر زنا کا الزام لگایا، اگر آپ ثبوت شرعی نہ لاسکیں تو آپ اسّی کوڑے سزا کے مستحق ہیں اور فاسق، اور ہمیشہ کے لیے مردودُ الشہادہ۔ زنا کے حمل کی حالت میں نکاح درست ہے۔ در مختار میں ہے: وَ صَحَّ نِکَاحُ حُبْلیٰ مِنْ زِنیٰ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳) مسجد میں شرابیوں اور اوباش لوگوں کو بٹھانا بہت بری حرکت ہے، اور مسلمانوں کو مسجد سےنکلوانا ظلم، لیکن اگر یہ لوگ تبلیغی دیوبندی ہیں جو مسجد میں جاکر چالاکی اور عیاری سے سنی مسلمانوں کو وہابی، دیو بندی بناتے ہیں، انھیں امام صاحب نکلواتے ہیں تو وہ ثواب کے مستحق ہیں۔ وہابی، دیوبندی شاتمان رسول کو امام و پیشوا بنانے کی وجہ سے کافر مرتد ہیں۔ انھیں مسجد میں آنے دینا جائز نہیں گناہ ہے۔اور مسجد سے نکالنا واجب۔ در مختار میں ہے: وَيُمْنَعُ مِنْہُ كُلُّ مُؤْذٍ وَلَوْ بِلِسَانِہٖ ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ سوال کی شق چوں کہ متعین نہیں، مثلاً یہ کہ امام نے زنا کیا، اس کا ثبوت شرعی ہے یا نہیں؟ امام جن لوگوں کو مسجد سے نکلواتے ہیں وہ سنی مسلمان ہیں یا دیوبندی، تبلیغی، مودودی۔ اس لیے امام صاحب کے بارے میں کوئی فتویٰ نہیں دیا جاسکتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved