----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- جس شخص کو پورے طور پر یہ معلوم نہیں کہ نماز میں کتنے فرائض و سنن ہیں، اس کو امام نہیں بنانا چاہیے؛ جب کہ ایسا شخص موجود ہو جو تمام فرائض و واجبات و سنن سے واقف ہو۔ اگر یہ حافظ نماز صحیح طریقے سے پڑھاتا ہے تو اس کے پیچھے عالم کی بھی نماز بلا کراہت درست ہوجائےگی۔ ویسے حافظ کو چاہیے کہ عالم کا احترام کرتے ہوئے عالم ہی کو امام بنائے، خود آگے نہ بڑھے۔ عالم کے پیچھے نماز پڑھنا بہت بڑی نعمت ہے۔ حدیث میں ہے: من صلی خلف عالم تقي فكأنما صلی خلف نبي من الأنبياء ۔ جس نے کسی متقی عالم کے پیچھے نماز پڑھی اس نے گویا ایک نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔ تمام کتب فقہ میں ہے: وأولی الناس بالإمامۃ أعلمہم بالسنۃ ۔ علاوہ ازیں بہت سے حفاظ نماز صحیح طریقے سے نہیں پڑھتے، بلکہ بعض، فرائض تک چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اور حافظ ہونے کا غرور انھیں سیکھنے سے روکتا ہے۔بلکہ اگر تنبیہ کیجیے تو لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں؛ اس لیے علماے کرام بے علم حافظوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچتے ہیں۔ جان بوجھ کر پڑھیں تو نماز گنوائیں، بتائیں تو جھگڑا مول لیں۔ میرے اوپر خود یہ گزری ہے۔ ایک مسجد میں نماز کے لیے گیا، جماعت کھڑی تھی میں شامل ہوگیا۔ حافظ نے قراءت میں غلطی کی، میں نے ٹوکا تو اس نے لقمہ نہیں لیا۔ غلطی ایسی تھی کہ جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ حافظ کے سلام پھیرنے کے بعد جب میں نے اسے بتایا تو لڑنے مرنے پر تیار ہوگیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org