22 December, 2024


دارالاِفتاء


[بانس بڑیا، ضلع ہبلی ] ایک امام پر لگے الزامات سے متعلق فتوی---- [سوال اور سائل کاپتا نہ ہونے کے باوجود مسئلے کی اہمیت وافادیت کی بنا پریہ تحقیقی فتویٰ درج کیا گیا۔[ محمد صادق مصباحی]]

فتاویٰ #1680

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللھم ہدایۃ الحق والصواب! جامع مسجد بانس بڑیا، ضلع ہبلی کے امام، جناب مولانا ابو الکلام مصباحی کی امامت کے سلسلے میں یہاں عرصہ سے جو تنازع چل رہا ہے، اس کے تصفیہ کے لیے فریقین کے ذمہ دار افراد نے مجھے[یعنی حضور شارحِ بخاری کو] مدعو کیا۔ میں ۶؍ صفر 1418ھ مطابق ۱۳؍ جون 1997ء تقریباً دس بجے صبح کو جامع مسجد بانس بڑیا پہنچا۔ اپنے تعاون کے لیے جناب مولانا مفتی محمد نظام الدین صاحب زید مجدہم کو بھی ہمراہ لےلیا۔ جامع مسجد پہنچنے کے بعد فریقین کے نمائندوں سے زبانی بھی گفتگو ہوئی، اور انھوں نے طول طویل تحریریں بھی پیش کیں۔ سب کی باتیں سننے اور سب تحریریں پڑھنے کے بعد، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جناب مولانا ابو الکلام مصباحی پر ۱۷؍ الزامات ہیں۔ از روے شرع مجھ پر لازم تھا کہ میں مولانا ابو الکلام صاحب سے دریافت کروں کہ یہ الزامات صحیح ہیں یا غلط؟ چناں چہ میں نے ان سب الزامات کی تلخیص کرکے لکھ کر مولانا کو دیا۔ انھوں نے جواب کے لیے رات بھر کی مہلت مانگی۔ میں بہت پہلے ہی آرہ کے ایک جلسے کی دعوت منظور کرچکا تھا ؛اس لیے میں رات ہی میں آرہ کے لیے چلاگیا، آرہ سے پھر پٹنہ کے لوگ مجبور کرکے پٹنہ لےگئے۔ دو تین دن اس میں صرف ہوگئے۔ سخت دھوپ اور شدید گرمی میں سفر کرنے کی وجہ سے طبیعت علیل ہوگئی۔ افاقے کے بعد مولانا ابو الکلام صاحب کے جوابات سنے۔ ساری تحریرات اور مولانا کے جوابات پر غور و خوض کرنے کے بعد فیصلہ لکھوا رہا ہوں۔ اس میں نہ کسی کی جانب داری ہے، اور نہ کسی کی مخالفت۔ میری قبر میں نہ مولانا ابو الکلام جائیں گے نہ ان کے مخالفین۔ قبر میں میرے ساتھ میرا عقیدہ اور عمل جائےگا۔ خلاف شرع فیصلہ کرنا ظلم ہے، حرام ہے، اور اپنی عاقبت برباد کرنا ہے۔ الزام اور پھر ان کی صفائی، سب پر تنقید اور سب کی تنقیح بہت لمبا کام ہے۔ اس لیے میں اختصار کے پیش نظر چند اہم دفعات کو سامنے رکھ کر فیصلہ لکھوا رہا ہوں: (۱) مولانا ابو الکلام صاحب الزام ایک کے جواب میں اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ: ’’ انھوں نے اپنے بچے کو مودودیوں کے اسکول ’’الھدیٰ‘‘ میں پڑھنے کے لیے داخل کیا۔‘‘ کسی بچے کو مودودیوں کے اسکول میں بھیجنا، حرام گناہ اور فسق ہے۔ اس لیے مولانا فاسق ہوئے، اور وہ بھی فاسق معلن۔ اس کی صفائی میں یہ کہنا کہ ’’ آخر ہندوؤں کے اسکولوں میں بھی لوگ لڑکوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں‘‘ صحیح نہیں۔ اس لیے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں پیش کرسکتا کہ کوئی مسلمان لڑکا ہندو اسکول میں پڑھ کر ہندو ہوا ہو، لیکن مودودیوں، وہابیوں کے اسکول اور مدرسوں میں پڑھ کر ہزاروں سنیوں کے لڑکے وہابی ہوگئے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان بچہ ہوش سنبھالتے ہی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ہندو ایک الگ مذہب ہے، جس کی وجہ سے بچے کے دل میں ہندوؤں سے ایک مذہبی نفرت رہتی ہے۔ بخلاف وہابیوں، مودودیوں کے کہ مسلمان بچہ ان کو دوسرے مذہب کا نہیں جانتا، ان کو مسلمان سمجھتا ہے اور ان کے دھوکے میں آجاتا ہے۔ کسی ہندو اسکول میں اس کی کوشش نہیں ہوتی کہ مسلمان بچوں کو ہندو بنایا جائے۔ لیکن وہابیوں، مودودیوں کے مدرسوں اور اسکولوں میں اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ بچے وہابی مودودی ہوجائیں۔ (۲) الزام (۲) کے جواب میں مولانا نے اعتراف کیا ہے کہ ’’ میں مودودیوں کے جلسے میں اپنے بچے کو لینے کے لیے گیا، تو ان لوگوں کے اصرارپر ان کے جلسے میں شریک ہوگیا۔‘‘ لوگوں کے کہنے یا دباو ڈالنے سے بھی بد مذہبوں کے کسی جلسے میں شریک ہونا جائز نہیں، حرام و گناہ ہی ہے۔ مودودیوں کے جلسے میں شریک ہوکرمولانا فاسق معلن ہوئے۔ الزام (۱۴) کے جواب میں مولانا نے خود مودودیوں کے بارے میں لکھا ہے: ’’یہ گمراہ اور گمراہ کن ہیں، بد دین، کافر مرتد ہیں، ان سے میل جول، سلام کلام منع ہے۔ جو شخص اس جماعت کے کفر پر مطلع ہوتے ہوئے میل جول رکھے، اسے امام بنانا درست نہیں۔ ‘‘ اور یہ ہر شخص جانتا ہے کہ ان کے مدرسے میں بچے کا داخلہ اور ان کے جلسے میں شرکت، سلام کلام،میل جول ہی ہے۔ جس کی وجہ سے مولانا خود اپنے ہی اقرار سے امامت کے لائق نہیں رہے۔ (۳) الزام(۳) کے جواب میں مولانا ابو الکلام نے لکھا: ’’مجھے معلوم نہیں ہوا کہ بس میں میرا کیسٹ بنایا جا رہا ہے‘‘۔ مولانا کا یہ عذر کسی عاقل کے نزدیک قابل قبول نہیں۔بس بہت لمبی چوڑی نہیں ہوتی، پھر ویڈیو کیسٹ بنانے والے چہرے کی تصویر ضرور لیتے ہیں۔ اسے کون مان سکتا ہے کہ مولانا اتنے بھولے ہیں کہ ان کی تصویر بنائی جاتی رہی اور مولانا کو خبر نہیں ہوئی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مولانا باتیں بنانے کے ماہر ہیں۔ چلیے ان کے اس عذر کو مان بھی لیجیے، مگر تاج محل میں دوستوں کے اصرار پر جو تصویر کھنچوائی وہ کیسے جائز ہوگئی۔ گناہ کسی کے اصرار سے کیا جائے یا بخوشی کیا جائے، گناہ ہی رہتا ہے۔ فوٹو کھنچوانا حرام ہے۔ اس کی وجہ سے بھی مولانا فاسق معلن ہوئے۔ اس لیے ہم، اللہ ﷯ اور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مولانا ابو الکلام مصباحی کو امامت سے معزول کردینا واجب ہے۔ اور ان کو امام بنائے رکھنا گناہ۔ ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کا دہرانا واجب۔ دارالعلوم ضیاء الاسلام ہوڑہ کا دوسرا فتویٰ جو مفتی دلدار صاحب زید مجدہم کا لکھا ہوا ہے، اس میں یہ ہے کہ: ’’اگر زید توبہ کرلے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس میں نقص ہے۔ نقص یہ ہے کہ علما نے فرمایا:فاسق معلن اگر توبہ کرلے تو فوراً وہ قبول نہ کی جائےگی، جب تک ایک مدت گزر کر اطمینان نہ ہوجائے کہ یہ شخص اپنی توبہ پر قائم ہے، اور اس نے اصلاح کرلی ہے۔ فتاویٰ رضویہ، جلد دہم، نصف اول، ص: ۲۵۶، ۲۵۷؍پر ہے: ’’اس کے ساتھ بندوں کے معاملے تین قسم ہیں: ایک یہ کہ گناہ کی اس کو سزا دی جائے۔ اس پر یہاں قدرت کہاں۔ دوسرے یہ کہ اس کے ارتباط واختلاط سے تحفظ وتحرز نہ کیا جائے کہ بد مذہب کا ضرر سخت معتذر ہوتاہے۔ تیسرے یہ کہ اس کی تعظیم وتکریم مثل قبول شہادت و اقتداے نماز وغیرہ سے احتراز کریں۔ فاسق و بدمذہب کے اظہار توبہ کرنے سے قسم اول تو فورا موقوف ہوجاتی ہے الا فی بعض؛ مگر دو قسم باقی ہنوز باقی رہتی ہیں یہاں تک کہ اس کی صلاح حال ظاہر ہو اور مسلمان کواس کے صدق توبہ پر اطمینان حاصل ہو۔ اس لیے کہ بہت عیار اپنے بچاو اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے زبانی توبہ کرلیتے ہیں اور قلب میں وہی فساد بھرا ہواہے۔ پھر صحت توبہ پر اطمینان کتنی مدت میں حاصل ہوتاہے۔ صحیح یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی مدت متعین نہیں کرسکتے۔ جب اس شخص کی حالت کے لحاظ سے اطمینان ہوجائے کہ اب اس کی اصلاح ہوگئی اس وقت اس سے دو قسم اخیر کے معاملات بر طرف ہوں گے۔ فتاوٰی امام قاضی خاں پھر فتاوٰی عالم گیریہ میں ہے : الفاسق إذا تاب لاتقبل شہادتہ مالم یمض علیہ زمان یظہر علیہ أثر التوبۃ، والصحیح أن ذٰلک مفوض إلی راء القاضی۔ ظاہر ہے کہ یہ بات، نظر بحالات مختلف ہوجاتی ہے۔ ایک سادہ دل، راست گو سے کوئی گناہ ہوا، اس نے توبہ کی، اس کے صدق پر جلد اطمینان ہوجائے گا۔ اور دروغ گو، مکار کی توبہ کااعتبار نہ کریں گے اگر چہ ہزار مجمع میں تائب ہو۔ امام اجلّ، ملک العلما، ابو بکر مسعودکاسانی قدس سرہ الربانی بدائع میں فرماتے ہیں : المعروف بالکذب لاعدالۃ لہ، ولا تقبل شہادتہ أبدا وإن تاب، بخلاف من وقع فی الکذب سہوا أو ابتلی بہ مرۃ ثم تاب۔ جو کوئی دروغ گوئی یعنی جھوٹ بولنے میں مشہور ہو تو اس کے لئے کوئی عدالت نہیں؛ لہذا کبھی بھی اس کی شہادت مقبول نہیں ہوسکتی اگر چہ تائب ہوجائے۔ بخلاف اس شخص کے جس نے بھول کر جھوٹ کہہ دیا یا کبھی کبھار اس سے غلط بیان ہوگئی پھر اس نے توبہ کرڈالی‘‘ (تو اس کی شہادت توبہ کرنےکے بعد مقبول ہوگی۔) اس لیے مولانا کو امامت سے معزول کرنا ہی واجب ہے۔ توبہ کے بعد جب ان کے اصلاح حال پر اطمینان ہوجائے گا تو پھر دیکھا جائےگا۔ مفتی دلدار حسین صاحب نے فتویٰ اس نقطے سے ناواقفی کے باعث دیا۔ اسی طرح مولانا ابو الکلام نے ۱۶؍ جنوری 1997ء کی میٹنگ میں جو توبہ کی تھی، وہ حقیقت میں توبہ نہیں۔ انھوں نے یہ کہا: ’’میں توبہ کرتا ہوں‘‘۔ توبہ کے لیے ضروری ہےکہ ملزم پر جو الزام لگایا جائے اس الزام سے براءت ظاہر کرے، اس کا نام لے، یہ کہے کہ میں فلاں گناہ سے توبہ کرتا ہوں۔ مولانا ابو الکلام عالم ہیں، وہ توبہ کا صحیح طریقہ یقینا ًجانتے ہیں، پھر بھی انھوں نے صحیح طریقے سے توبہ نہیں کی۔ یہ ایک طرح کا مغالطہ ہے، اس سے بھی مولانا کی پوزیشن مشتبہ ہوجاتی ہے اور اس کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ انھوں نے اپنی ملازمت بچانے کےلیے وہ توبہ کی تھی جو حقیقت میں توبہ نہ تھی، مقصود ان جرائم سے بچنا نہیں تھا۔ بہر حال! حکم شرعی یہی ہےکہ مولانا ابو الکلام مصباحی کو امامت سے بلا تاخیر برطرف کردیا جائے، بااختیار لوگ اس میں تاخیر کریں گے تو گنہ گار ہوں گے۔ (۴) الزام نمبر ۲۰ کے جواب میں مولانا نے لکھا کہ: ’’ ان کی سالی ان کے گھر آئی ہوئی تھی، اور ان کے گھر بطور مہمان رہی۔‘‘ سالی، بہنوئی کے لیے اجنبیہ ہے۔ ان دونوں کا بےپردہ آمنے سامنے ہونا، تنہائی میں اکٹھا ہونا، آپس میں بات چیت کرنا حرام وگناہ ہے۔پھر اگر خدا نہ خواستہ مولانا خود اپنی سالی کو اس کے گھر سے بانس بیڑیا لائے تو یہ الگ گناہ ہوا، اگرچہ ان کی بیوی ساتھ رہی ہو۔ اسی طرح اگر اس کو خود ہی گھر پہنچا آئے، یہ الگ گناہ ہوا۔ اور اگر مولانا اپنی سالی کو خود نہیں لائے اور خود نہیں لےگئےتو جس کے ساتھ ان کی سالی اپنے گھر سے بانس بیڑیا آئی اور پھر بانس بیڑیا سے اپنے گھر گئی، وہ اگر مولانا کی سالی کا ذو رحم محرم نہیں تھا تو بھی مولانا گناہ سے نہیں بچ سکتے۔ یہ سب مولانا کی مرضی سے ہوا۔ گناہ پر رضا یا کسی کو گناہ کرنے کاحکم دینا خود گناہ ہے۔ (۵) الزام(۴) کے جواب میں آپ نے یہ اقرار کیا ہے کہ: ’’ مفتی نوشاد علی صاحب نے مجھ کو کافر ثابت کیا ہے‘‘۔ لیکن کمیٹی منعقدہ ۱۶؍ جنوری ۱۹۹۷ء میں اس سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے: ’’جناب ایسی کوئی بات نہیں‘‘ کمیٹی میں مفتی نوشاد علی کے روبرو انکار، پھر مجھ کو پیش کیے گئے جواب میں اقرار، تضاد بیانی ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ مولانا امام صاحب غلط بیانی اور جھوٹ سے بھی کام لیتے ہیں۔ (۶) مولانا ابو الکلام صاحب نے اعتراض کرنے پر کہنے کو تو کہہ دیا کہ اب میرا لڑکا ’’الھدیٰ‘‘ اسکول میں نہیں پڑھتا، مگر گواہوں کا بیان ہے کہ اس کے بعد بھی لڑکا ’’الھدیٰ‘‘ اسکول میں پڑھتا رہا، جیساکہ پوچھنے پر اس لڑکے نے بتایا۔ اور جب مولانا سے یہ سب کچھ دریافت کیا گیا تو مولانا نے کہا کہ’’ لڑکے کی لائف [زندگی]کا سوال ہے۔‘‘ اس کامطلب یہ ہے کہ ان کا کردار دوہرا ہے، جھوٹ بھی بولتے ہیں، فریب بھی دیتےہیں۔ ایسی صورت میں وہ امامت کے لائق کسی طرح نہیں۔ مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر مولانا ابو الکلام مصباحی، امام جامع مسجد بانس بیڑیا، بلا شبہہ خود اپنے اقرار سے فاسق معلن ہیں، وہ بھی ایک نہیں چھ چھ وجوہ سے۔ خصوصاً چوتھا نمبر، یعنی سالی کو اپنے گھر میں رکھنا، ان گنت فسقوں کا مجموعہ ہے۔ جب جب سالی سے بات چیت کی، گناہ ہوا، اس کے چہرے پر نظر ڈالی، گناہ ہوا، اور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ۔اسے معزول کرنا واجب۔ غنیہ میں ہے: لَوْ قَدَّمُوا فَاسِقاً یَّا ثمُوْنَ بِنَاءً عَلَیٰ أَنَّ کَرَاھَۃَ تَقْدِیْمِہٖ کَرَاھَۃُ تَحْرِیْمٍ ۔ اگر لوگ فاسق کو امام بنائیں گے تو گنہ گار ہوں گے اس بنا پر کہ فاسق کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔ در مختار میں ہے: كُلُّ صَلَاۃٍ أُدِّيَتْ مَعَ كَرَاھَۃِ التَّحْرِيمِ تَجِبُ إعَادَتُھَا ۔ جو نماز کراہت تحریم کے ساتھ ادا کی گئی اس کا دہرانا واجب ہے۔ مولانا ابو الکلام مصباحی، امام صاحب نے قاری ابو الکلام رضوی پر چند الزامات لگائے ہیں، مگر اس کے تصفیے کے لیے پھر بانس بیڑیا جانا پڑےگا، یک طرفہ الزام پر فیصلہ کرنا جائز نہیں۔ پھر مجھے ان کے اوپر لگائے گئے الزامات پر تصفیہ کے لیے نہیں بلایا گیا تھا، اس لیے اس سلسلے میں کچھ لکھنے سے معذور ہوں۔ (۷) اخیر میں ایک بات اور یاد گئی جو نظر انداز کرنے کے لائق نہیں۔ اکیسواں نمبر یہ تھا: ’’ کیا کبھی قراءت میں آپ نے تلافی میں سجدۂ سہو کیا، اور قاری ابو الکلام رضوی صاحب نے آپ کو متنبہ کیا تو آپ نے کہا نماز ہوگئی‘‘۔ اس کے جواب میں مولانا نے لکھا: ’’قراءت کی غلطی پر سجدۂ سہو کرنا ہمیں یاد نہیں۔‘‘ اس سلسلے میں حکم شرع یہ ہے کہ قراءت میں کسی بھی غلطی پر سجدۂ سہو نہیں۔ اگر غلطی ایسی ہے جس سے معنی فاسد ہوجائیں تو نماز بھی فاسد ہوجائےگی، سجدۂ سہو سے درست نہ ہوگی۔ اور اگر غلطی ایسی نہیں جس سے معنی فاسد ہوں تو نماز ہوجائےگی۔ اگر مولانا سے کبھی ایسی غلطی ہوئی ہے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور مولانا نے نماز دوبارہ پڑھی نہیں، صرف سجدۂ سہو کرلیا، تو نماز سب کے ذمہ رہ گئی۔ امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ لوگوں کی نمازیں صحیح ادا ہوں۔ قاری ابو الکلام رضوی کا بیان اگر صحیح ہے تو مولانا اس دفعہ کے لحاظ سے بھی امامت کے اہل نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved