22 December, 2024


دارالاِفتاء


جامع مسجد اکبر پور، ضلع نوادہ کا امام و خطیب محمد شاہد [جو اپنے کو عالم اور سنی کہتا ہے] نے ایک عرس کی تقریب میں، جس میں غیر مسلم عقیدت مند بھی خاصی تعداد میں تھے کہا کہ: میں خود کٹر ہندو ہوں؛ اس لیے کہ ایران کے لوگ اپنے کو ایرانی، عراق کے لوگ اپنے کو عراقی، عرب کے لوگ اپنے کو عربی اور عجم کے لوگ اپنے کو عجمی کہتے ہیں، تو ہندوستان کا باشندہ ہونے کے ناطے میں ہندو ہوں۔ اپنے قول کی تائید میں امام صاحب نے ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر، غلط طور پر پڑھا کہ: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہندو ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا [معاذاللہ] جب کہ ’’بانگ درا‘‘ میں اقبال صاحب نے اس طرح شعر لکھا: مذہب نہیں سکھاتا، آپس میں بَیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا نیز اسی تقریب میں امام موصوف نے یہ بھی کہا کہ’’مومن ولی میں خدا سما جاتا ہے اور وہ خدا میں سما جاتا ہے اور جو اللہ کا ہوجاتا ہے، تو اللہ ہی اس کے پاؤں سے چلتا ہے، منھ اس کا ہوتا ہے مگر اللہ ہی کھاتا ہے‘‘۔ [معاذ اللہ۔] نیز انھوں نے ابراہیم ادہم بلخی کامشہور واقعہ محل اور اونٹ والا جو تذکرۃ الاولیا میں حضرت شیخ فرید الدین عطار نے ص: ۸۰ پر رقم فرمایا ہے، اس واقعہ کو ابراہیم لودھی، الھدف کے نام منسوب کیا۔ اور ایک غیر مطلقہ عورت کا عقد بھی پڑھایا۔ اور شب براءت میں وتر کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھایا۔ مدرسے کی چھت کو مسجد بنانا اور شب براءت میں مدرسے کی چھت پر نماز وتر پڑھنا یا پڑھانا، یا تہجد کی نماز جماعت سے پڑھنا یا پڑھانا از روے شرع کیسا ہے؟ امام موصوف جنھوں نے اپنے کو بھرے مجمع میں ہندو کہا، ان کے پیچھے نماز اور ان سے میل جول کرنا کیسا ہے؟

فتاویٰ #1636

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- یہ امام اسلام سے خارج ہوکر کافر ومرتد ہوگیا۔ اس کے تمام اعمال حسنہ اکارت ہوگئے۔ اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی۔ اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں؛ بلکہ اپنی نمازوں کو ضائع کرنا ہے؛ بلکہ ایسا ہے گویا نماز ہی نہیں پڑھی، قضا کردی؛ اس لیے کہ نماز صحیح ہونے کے لیے ایمان شرط ہے۔ جب ایمان نہیں، نماز کیسی؟ اس سے میل جول، سلام کلام حرام۔ اس نے اپنے آپ کو ہندو کہا، یہ کہتے ہی وہ ہندو ہوگیا۔ عالم گیری میں ہے: مُسْلِمٌ قَالَ : أَنَا مُلْحِدٌ يَكْفُرُ، وَلَوْ قَالَ : مَا عَلِمْت أَنَّہُ كُفْرٌ لَا يُعْذَرُ بِھَذَا ۔ ہندو کے معنی کسی لغت میں ہندوستان کا رہنے والا نہیں، بلکہ ہندو، ہندوستان کے مشرکوں کو کہتے ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والے کو ہندی کہا جائےگا۔ کسی چیز کی طرف نسبت کرنے کے لیے ’’ی‘‘ آتی ہے ’’واو‘‘ نہیں آتا۔ پھرجب عرف عام میں ہندو، ہندوستان کے مشرکین کو کہتے ہیں اور یہی معنی شائع ذائع ہے، عوام و خواص سب اسی معنی میں بولتے ہیں اور اس لفظ سے یہی سمجھتے ہیں تو اپنے جی سے نیا معنی گڑھ کر بولنا معتبر نہیں ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہےجیسے کوئی کہے: ’’زید حرامی ہے‘‘، اور جب زید خفا ہو تو کہنے والا کہے کہ حرامی کے معنی عربی زبان میں عزت والے کے ہیں، جیسے مسجد حرام، شہر حرام۔ حرامی سے میری مراد ہے عزت والا۔ کوئی بھی دیانت دار اس کو تسلیم نہیں کرےگا۔ اسی طرح جب ہندو کا ایک معنی متعین ہے تو اسے بول کر نیا معنی تراشنا مردود ہے۔ اس امام نے یہ کہا: ’’مومن ولی میں خدا سما جاتا ہے، اور وہ خدا میں سما جاتا ہے۔‘‘یہ دونوں جملے اس کے، مستقل کفر ہیں۔ اللہ اس سے منزہ ہے کہ اس کی ذات میں کوئی سمائے، اور اس سے بھی منزہ ہے کہ وہ کسی چیز میں سمائے۔ ارشاد ہے: اَلَاۤ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطٌؒ۰۰۵۴۔ اور فرمایا: وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطًاؒ۰۰۱۲۶۔ اور اس کا چوتھا کفر یہ ہے کہ اس نے کہا: ’’جو اللہ کا ہو جاتا ہے، تو اللہ اس کے پاؤں سے چلتا ہے۔‘‘ اور پانچواں کفر یہ ہے کہ: ’’منھ اس کا ہوتا ہے مگر اللہ ہی کھاتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ چلنے پھرنے، کھانے پینے سے منزہ ہے۔ چلتا پھرتا وہ ہے جو ہر شے کو محیط نہ ہو۔ چلنے کے لیے لازم ہے کہ ایک جگہ چھوڑی جائے اور دوسری جگہ پہنچا جائے۔ اللہ تعالیٰ جگہ سے پاک اور شہید و بصیر ہے۔ پھر دوسرے کے پاؤں سے چلنے کو احتیاج لازم ہے، سب اللہ کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ کھاتا وہ ہے جو بھوکا ہو۔ پھر کھانے کے لیے منھ، تالو، زبان، حلق، معدہ لازم۔ اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات سے منزہ ہے۔ سیدنا حضرت ا براہیم بن ادھم قدس سرہٗ کے واقعے کو ابراہیم لودھی کا واقعہ بتانا نری جہالت ہے۔ سیدنا ابراہیم بن ادھم دوسری صدی میں تھے، اور ابراہیم لودھی، نوی صدی میں۔ وہ بلخ کے باشندے تھے، یہ ہندوستان کا۔ بلکہ ابراہیم لودھی کی پیدائش سے صدیوں پہلے حضرت خواجہ فرید الدین عطار قدس سرہٗ چھٹی صدی کے بزرگ ہیں اور ابراہیم لودھی نوی صدی میں تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ جو عورت کسی کی منکوحہ ہو، اس کا نکاح کسی شخص سے کرنا حقیقت میں زنا کی دلالی ہے۔ کسی کی منکوحہ کا نکاح کسی طرح درست نہیں۔ ارشاد ہے: الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ ۔ لیکن جو شخص کفریات کے پھنکے اڑائے اس سے اس کی کیا شکایت۔ وہ زنا کا دلال ہے، اس امام کو امامت سے معزول کرنا فرض، اس کے پیچھے نماز پڑھنا نمازوں کو برباد کرنا ہے۔ اس سے میل جول، سلام کلام حرام۔ علاوہ رمضان کے کسی موقعے پر وتر کی نماز جماعت سے پڑھنا جائز نہیں۔ مدرسے کے اوپر مسجد بنانا درست نہیں۔ اس لیے کہ یہ تغییر وقف ہے اور تغییر وقف حرام۔ عالم گیری میں ہے: وَلَا يَجُوزُ تَغْيِيرُ الْوَقْفِ عَنْ ھَيْئَتِہِ ؛ فَلَا يَجْعَلُ الدَّارَ بُسْتَانًا، وَلَا الْخَانَ حَمَّامًا، وَلَا الرِّبَاطَ دُكَّانًا ۔ یہ دوسری بات ہے کہ مدرسے کی چھت پر کوئی عمارت بنائی جائے اور اس میں نماز پڑھی جائے اور دوسرے اوقات میں وہ مدرسے کے کام آئے۔ مگر اس میں نماز پڑھنے سے مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب نہیں ملےگا۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ مسجد کے لیے زمین حاصل کرکے مسجد بنائیں۔ مسجد کی اتنی اہمیت ہے کہ حضور اقدس ﷺ جب قبا میں تشریف لائے تو سب سے پہلے مسجد بنائی۔ اور جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو پہلے اپنے مکانات نہیں بنوائے بلکہ مسجد بنائی، پھر مکانات بنائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved