----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- جو شخص اکثر نماز فجر یا کوئی بھی نماز قضا کردیتا ہو وہ فاسق معلن ہے، اسے امام بنانا جائز نہیں۔ اس کی پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔ لیکن اگر حاضرین میں سب کے سب فاسق وفاجر ہوں، خواہ کسی وجہ سے۔ یا ایسے لوگ ہوں کہ صحیح خواں نہیں، یا ایسے لوگ ہوں جو معذور ہوں کہ بوجہ عذر امام نہ ہوسکتے ہوں، تو شخص مذکور ایسے لوگوں کا امام ہوسکتا ہے۔ فتاویٰ رضویہ، جلد سوم میں ہے: بلکہ جب اس کے سوا نہ کوئی امامت کے قابل ہو،نہ دوسری جگہ جماعت ملے تو اس کے پیچھے کراہت بھی نہ رہے گی: فی الدر: ھذا إن وجد غیرھم، وإلا فلا کراھۃ، بحر بحثاً اھ۔ قال الشامی : قد علمت أنہ موافق للمنقول عن الاختیار وغیرہ۔ اور جب حاضرین میں ایسے لوگ موجود ہیں، جو نہ فاسق ہیں، نہ معذور، نہ غلط خواں تو شخص مذکور کو امام بنانا جائز نہیں۔ اور اگر جماعت ہو رہی ہو اور یہی شخص نماز پڑھا رہا ہو پھر ایسے شخص آجائیں جو فاسق بھی نہیں، معذور بھی نہیں، غلط خواں بھی نہیں تو انھیں چاہیے کہ جماعت میں شریک ہوجائیں۔ اب گناہ نہیں۔ البتہ رفع کراہت کے لیے بعد میں اعادہ کرلیں۔ اسی [فتاویٰ رضویہ ] میں چند سطر پہلے ہے: جماعت، اہم واجبات اور اعظم شعائر اسلام سے ہے، تو فسق امام کے سبب ترکِ جماعت نہ چاہیے، اداے جماعت کے لیے اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں اور رفع کراہت کے لیے اعادہ کرلیں۔ فی الفتح عن المحیط، وفی البحر عن الفتاوی، وفی الدرعن النھر، عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ اھ۔ فی رد المحتار : أفاد أن الصّلاۃ خلفھما أولی من الانفراد إلخ۔ ومثلہ فی البحرعن السراج فی الفاسق۔ وفی الفتح : الحق التفصیل بین کون تلک الکراھۃ کراھۃ تحریم فتجب الإعادۃ أو تنزیہ فتستحب۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org