8 September, 2024


دارالاِفتاء


کیا ہر نماز سے قبل اذان کے بعد صلاۃ کا پکارنا ضروری ہے۔ زید کہتا ہے کہ یہ بدعت ہے اور سرکار نے ہر بدعت کو حرام فرمایا ہے اور ائمۂ متقدمین نے بھی اسے جائز نہیں قرار دیا ہے جب کہ بکر کہتا ہے کہ ائمۂ متاخرین نے اسے جائز فرمایا ہے بقول زید کے ائمۂ متقدمین کے ہوتے ہوئے متاخرین کی اقتدا ضروری نہیں۔ ایسی صورت میں کس کی بات مانی جائے؟

فتاویٰ #1537

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: گالی گلوج اور بدزبانی کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ۔ یہی کہنا گمراہی ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ مسلم شریف میں حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: من سن في الإسلام سنۃ حسنۃ يکون لہ أجرہا وأجرمن عمل بہا من بعدہ من غیر أن ینقص من أجورہم شيء۔ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اسے ایجاد کرنے کا ثواب ملے گا اور جتنے لوگ اس پر عمل کریں گے سب کے برابر ایجاد کرنے والے کو ثواب ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہ حدیث اس پر نص ہے کہ بہت سی بدعتیں حسنہ ہیں جن کا ایجاد کرنا بھی ثواب ہے اور اس پر عمل کرنا بھی ثواب ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بدعت سیئہ اور حسنہ کے درمیان یہ فرق بتایا کہ جو بدعت قرآن، حدیث اور اجماع امت کے مخالف ہو وہ بدعت مذمومہ اور سیئہ ہے، اور جو ان میں سے کسی کے مخالف نہ ہو اگر وہ خیر ہے تو حسنہ ہے ورنہ مباح۔ اب جو شخص یہ کہتا ہے کہ اذان واقامت کے درمیان صلاۃ پکارنا بدعت سیئہ وضلالت ہے اس پر لازم ہے کہ یہ ثابت کرے کہ یہ صلاۃ [تثویب] قرآن مجید کی فلاں آیت، فلاں حدیث ، اجماع امت یا مجتہدین کے قیاس کے مخالف ہے۔ اور دعوے سے کہتے ہیں کہ قیامت تک کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا۔ رہ گئی علماے متقدمین ومتاخرین کی بات تو زید بڑا قابل ہے تو یہی بتادے کہ کس صدی تک کے علما متقدمین ہیں اور کس صدی کے بعد سے متاخرین۔ وہابیوں کے مذہب میں دھوکا اور فریب سب سے بڑی عبادت ہے۔ وہ متاخرین کے لفظ سے دھوکا دینا چاہتا ہے اس دجال کو بتادیں صاحب ہدایہ لکھتے ہیں: والمتاخرون استحسنوہ۔ اسے متاخرین نے مستحسن جانا ۔ ظاہر ہے کہ صاحب ہدایہ جسے متاخرین کہہ رہے ہیں یہ صاحب ہدایہ کے بھی پہلے کے علما ہیں اور صاحب ہدایہ چھٹی صدی کے علما میں سے ہیں۔ لا محالہ یہ متاخرین اور پہلے کے ہوئے صاحب عنایہ نے اس کے مستحسن ہونے پر اس حدیث سے استدلال کیا: ما رأہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن۔ جسے مسلمانوں کے عوام وخواص سب اچھا جانیں وہ چیز اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے۔ جب صاحب ہدایہ جیسے متبحر عالم نے اسے مستحسن فرمایا تو گمراہ شاتمان رسول وہابیوں کے بدعت سیئہ کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ صحیح بکر کا قول ہے۔ مسلمان اس کو ہرگز نہ چھوڑیں اور وہابی منع کریں تو ان سے کہہ دیں کہ تم سے کیا غرض ہمارا مذہب اور، تمہارا مذہب اور۔ تم اپنے مذہب پر رہو ہم اپنے مذہب پر رہیں گے، ہمارے تم ٹھیکے دار نہیں۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved