------شارح بخاری قدس سرہ کا جواب----- الجواب ــــــــــــــــــــــــــ: ان مجیبی صاحب پر حیرت ہے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں اور غیر مقلدوں کی طرح احادیث کو توڑ مروڑ کر فقہاے احناف کی تصریحات کے خلاف ڈھالتے ہیں۔ اس مسئلے کی تین صورتوں میں اول امام مسجد میں نہ ہو اور اقامت کہی جائے تو سب مقتدی بیٹھے رہیں جب امام کو دیکھ لیں کہ وہ مسجد میں داخل ہو گیا تو کھڑے ہوں جائیں اگر چہ ابھی اقامت شروع ہی ہوئی ہو یا فرض کیجیے ختم ہو گئی ہو، اسی پر وہ ساری حدیثیں دلالت کر رہی ہیں جو مجیبی صاحب نے نقل کی ہیں ۔ ان سب کا محمل یہی ہے اور یہی ہمارے فقہاے احناف نے فرمایا جیسا کہ ابھی عبارتیں آرہی ہیں۔ ثانی امام اور قوم سب مسجد میں ہوں تو امام اور قوم کو ابتداے اقامت میں بیٹھے رہنا چاہیے جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہنا شروع کرے تو لوگ کھڑے ہونا شروع کریں اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ فقہ حنفی کی تمام کتب میں اس کی تصریح ہے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ امام مسجد کے باہر ہو اور مصلیوں کے پیچھے سے آئے تو جس صف تک امام پہنچے اس صف والے کھڑے ہو جائیں۔ تنویر الابصار در مختار میں ہے: والقیام لإمام ومؤتم حین قیل حي علی الفلاح إن کان الإمام بقرب المحراب وإلا فیقوم کل صف ینتہی إلیہ الإمام علی الأظہر وإن دخل من قدام حین یقع بصرہم علیہ إلا إذا أقام الإمام بنفسہ في مسجد فلا یقفوا حتی یتم إقامتہ ، ظہیریۃ۔ اس کے تحت شامی میں ہے: قولہ حین قیل حي علی الفلاح، کذا في الکنز ونور الإیضاح والإصلاح والظہیریۃ، والبدائع وغیرہا والذي في الدرر متنا وشرحا عند الحیعلۃ الأولی یعنی حین یقال ’’حي علی الصلاۃ‘‘ اھ۔ وعزاہ الشیخ إسماعیل في شرحہ إلی عیون المذاہب والفیض والوقایۃ والنہایۃ والحاوي والمختار اھ ۔ قلت واعتمدہ في متن الملتقی وحکی الأول بـ قیل لکن نقل ابن الکمال تصحیح الأول ونص عبارتہ: قال في الذخیرۃ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ۔ ان سب عبارتوں کا حاصل یہ ہوا کہ اگر امام مسجد کے اندر محراب کے قریب ہو تو امام اور مقتدی دونوں ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں یہی کنز، نور الایضاح، اصلاح، ظہیریہ، بدائع ، ذخیرہ وغیرہ میں ہے۔ درر ، غرر، میں ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ پرکھڑا ہو۔ مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اس میں یہ تطبیق دی کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا شروع کرے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھا کھڑا ہو جائے یہ کل چار صورتیں ہوئیں۔ • اقامت کہنے والا امام کے علاوہ کوئی اور ہو اور امام مسجد کے باہر ہو ، امام مسجد میں اگلی صف سے آئے اس صورت کا حکم یہ ہے کہ مقتدیوں کی نظر جب امام پر پڑے سب کے سب کھڑے ہو جائیں خواہ تکبیر کے ابتدائی کلمات کہے جا رہے ہوں یا اخیر کے حتی کہ اگر تکبیر ختم ہو جائے اور امام مسجد میں نہ آئے تو بھی مقتدی بیٹھے رہیں۔ یہی حکم احادیث میں تصریح کے ساتھ موجود ہے۔ مجیبی صاحب نے جتنی احادیث نقل کی ہیں وہ سب اسی صورت کے ساتھ خاص ہیں۔ ہمارے دیار میں اس پر عمل نہیں بلکہ عمل یہ ہے کہ جب تک امام مصلے پر پہنچ نہیں جاتا اقامت شروع نہیں کی جاتی۔ مذکورہ بالا احادیث کا اس صورت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ • صورت مذکورہ میں امام مصلیوں کے پیچھے سے آئے اس صورت کا حکم یہ ہے کہ امام جس صف تک پہنچے وہ صف کھڑی ہو جائے ورنہ لوگ بیٹھے رہیں اگر چہ اقامت ختم ہو جائے۔ • امام اور مقتدی سب مسجد میں ہوں اور امام محراب کے قریب ہو جیسا کہ ہمارے دیار میں عام دستور ہے اس صورت میں حکم یہ ہے کہ امام اور مقتدی تکبیر بیٹھ کر سنیں اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں۔ مجیبی صاحب نے جو حدیثیں نقل کی ہیں ان کا تعلق اس صورت سے نہیں ، کوئی صاحب کوئی ایسی حدیث نہیں دکھا سکتے اور نہ کسی فقیہ کا قول دکھا سکتے ہیں کہ اس صورت میں امام اور مقتدی شروع تکبیر سے کھڑے رہیں۔ فقہا نے تو یہ فرمایا : یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ حي علی الفلاح۔ کھڑے ہو کر اقامت کے ختم ہونے کا انتظار کرنا مکروہ ہے بیٹھ جائے اور جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ پر پہنچے کھڑا ہو جائے۔ • امام خود تکبیر کہے تو سب مقتدی بیٹھے رہیں تکبیر ختم ہو جائے تو سب مقتدی کھڑے ہو جائیں۔ رہ گیا یہ کہنا کہ صف درست نہ ہو پائے گی انتہائی لچر بات ہے صف درست کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ علاوہ ازیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر صفیں ٹیڑھی ہوں تو اقامت کے بعد صفیں درست کی جائیں۔ حضرت امام اعظم کے تلمیذ جلیل امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مؤطا میں فرماتے ہیں: ینبغی للقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح أن یقوموا إلی الصلاۃ فیصفوا و یسووا الصفوف ویحاذوا بین المناکب۔ قوم کو چاہیے کہ جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو نماز کے لیے کھڑے ہوں، صف باندھیں، صفوں کو سیدھی کریں۔ مونڈھوں کو برابر کریں۔ حدیث میں ہے: أقیمت الصلاۃ فأقبل علینا رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- بوجہہ فقال أقیموا صفوفکم وتراصوا۔ اقامت کہی گئی اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے اپنا رخ انور ہماری طرف کیا اور ارشاد فرمایا : صفوں کو سیدھی کرو اور خوب مل کر کھڑے ہو ۔ اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ اقامت کے بعد بھی صفیں درست کی جا سکتی ہیں اگر پہلے سے درست نہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ جب امام اور مقتدی دونوں مسجد میں ہوں اور امام محراب کے قریب ہو اور تکبیر کہنے والا امام کے علاوہ کوئی اور ہو تو امام اور مقتدی دونوں کو بیٹھے رہنا چاہیے جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ کہے اس وقت کھڑے ہوں ۔ یہی تمام فقہ حنفی میں تصریح کے ساتھ مذکور ہے۔ ابتداے اقامت سے کھڑے رہنا مکروہ ہے اس کے خلاف نہ کوئی حدیث ہے نہ فقہ کا کوئی جزیہ ۔ اور مجیبی صاحب نے جو حدیثیں نقل کی ہیں وہ اس صورت کے لیے نہیں بلکہ پہلی صورت کے لیے ہیں جب کہ امام مسجد کے باہر ہو اور اقامت کہی جائے۔ خلط مبحث کر کے عوام کو خلجان میں ڈالنا مفتی کی شان کے لائق نہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ اقامت کے وقت اس صورت میں بیٹھے رہنا فرض یا واجب نہیں، نہ کسی نے اس کا دعوی کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ مستحبات پر عمل کرنا اور مکروہ سے بچنا کیا کوئی جرم ہے، کیا اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کہ اس مسئلہ کی تعلیم کرنے والوں پر لعن طعن وتشنیع کی جائے اور ایک مکروہ کے ارتکاب پر ضد کی جائے۔ کیا یہ دیانت ہے؟ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org