8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) امام اپنے مقتدیوں کے ساتھ مسجد کے اندر تکبیر کے وقت موجود ہے تو امام اعظم، امام ابویوسف، امام محمد رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک شروع سے کھڑا ہونا مستحب ہے یا ’’حي علی الصلاۃ ، حي علی الفلاح‘‘ کے وقت؟ (۲) اقامت کے وقت ’’حي علی الصلاۃ‘‘ ‘’حي علی الفلاح‘‘ تک بیٹھا رہنا مذہب احناف میں اگر مکروہ ہے تو براے کرم اس کو اصل عبارت مع ترجمہ وحوالہ کےساتھ تحریر فرمائیں۔ ۔۔۔۔دار العلوم دیوبند کا جواب۔۔۔۔ الجواب ـــــــــــــــ: (۱) سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس معاملہ میں حضرت نبی اکرم ﷺ اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا معمول کیا تھا؟ چناں چہ مسلم شریف اور دیگر کتب حدیث میں صاف صاف یہ موجود ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ انتظار فرماتے رہتے تھے اور جیسے ہی حضرت نبی اکرم ﷺ حجرہ شریف سے قدم مبارک باہر نکالتے اسی وقت حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ تکبیر شروع فرمادیتے، اور حضرات صحابۂ کرام اسی وقت کھڑے ہو جاتے تھے حتی کہ حضرت نبی اکرم ﷺ کے مصلے شریف تک پہنچنے پر صفیں بالکل درست ہو جاتی تھیں۔ اور جو طریقہ آج کل ہندوستان وغیرہ میں رائج ہوا ہے کہ امام مصلی پر آکر بیٹھتا ہے اور مقتدی سب بیٹھے رہتے ہیں پھر ایک شخص کھڑا ہو کر اقامت کہتا ہے اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر سب کھڑے ہوتے ہیں اور جو اس سے پہلے کھڑا ہو جائے اس پر طعن کرتے ہیں یعنی اس کو وجوب کا درجہ دے رکھا ہے۔ یہ شکل تو کہیں بھی ثابت نہیں بالکل خلاف سنت اور سنت قبیح ہے۔ حضرت نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا معمول اور حضرات فقہاے کرام رحمہم اللہ تعالی کے اقوال ومذاہب پر بحث شرح حدیث اعلاء السنن میں چار صفحوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ نقل عبارت کی گنجائش نہیں۔ ’’جواہر الفقہ‘‘ (اردو) میں اس پر عمدہ کلام ہے۔ (۲) نمبر ۱ کے تحت جواب آگیا۔ فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم۔

فتاویٰ #1524

حضرت شارح بخاری کاجواب ----بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ (۱) دیوبندی مفتی نے اپنے غیر مقلد بھائیوں کی طرح حوالہ دے کر سخت فریب دیا ہے ۔ اقامت کے وقت بیٹھے یا کھڑے رہنے کی پانچ صورتیں ہیں: اول : امام اور مقتدی سب مسجد میں محراب کے قریب موجود ہوں اور تکبیر امام نہ کہتا ہو۔ دوم: مذکورہ بالا صورت میں تکبیر خود امام کہہ رہا ہو۔ سوم: امام مسجد کے باہر ہو اور مقتدی مسجد میں اور امام صفوں کے آگے سے آئے۔ چہارم: اسی صورت میں امام صفوں کے پیچھے سے آئے۔ پنجم: امام مسجد کے باہر ہے اور اثناے اقامت میں مسجد میں نہ آئے، اقامت ختم ہونے کے بعد مسجد میں آئے۔ پہلی صورت کا حکم یہ ہے کہ امام ومقتدی دونوں بیٹھ کر تکبیر سنیں اور جب اقامت کہنے والا ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہنا شروع کرے تو کھڑے ہونا شروع کردیں اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ ہمارے دیار میں عام طور پر یہی صورت ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ احناف کی بیس، تیس کتابوں میں تصریح کے ساتھ مذکور ہے۔ کسی کتاب میں اس کے خلاف مذکور نہیں۔ تنویر الابصار و در مختار میں ہے: (والقیام) لإمام وموتم (حین قیل حي علی الفلاح إن کان الإمام بقرب المحراب وإلا فیقوم کل صف ینتہی إلیہ الإمام علی الأظہر وإن) دخل من قدام حین یقع بصرہم علیہ إلا إذا أقام الإمام بنفسہ في مسجد فلا یقفوا حتی یتم إقامتہ، وإن خارجہ قام کل صف ینتہی إلیہ۔ امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب ’’حي علی الفلاح‘‘ کہا جائے اور امام محراب کے قریب ہو ورنہ جہاں تک امام پہنچے وہ صف کھڑی ہو جائے اور اگر آگے سے امام آئے تو جس کی نظر امام پر پڑے کھڑا ہو جائے مگر جب کہ امام خود اقامت کہے مسجد میں رہتے ہوئے تو جب تک اقامت پوری نہ ہو جائے لوگ کھڑے نہ ہوں اور اگر امام مسجد سے باہر ہو تو جس صف کے قریب پہنچے وہ کھڑی ہو جائے۔ اس کے تحت علامہ شامی نے انیس کتابوں کے حوالے نقل فرمائے ہیں۔ اوریہ تفصیل تحریر فرمائی کہ کنز، نور الایضاح، اصلاح، ظہیریہ، بدائع وغیرہ میں ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت کھڑا ہو۔ لیکن درر، غرر، شیخ اسماعیل، عیون المذاہب، فیض، وقایہ ، نقایہ ، حاوی، مختار، ملتقی وغیرہ نے فرمایا کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے وقت کھڑا ہو۔ پھر فرمایا کہ امام ابن کمال نے پہلے قول کو صحیح کہا۔ ذخیرہ سے اس کی تائید نقل کی۔ مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ نے ان سب اقوال میں تطبیق یہ دی کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا شروع کرے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھا کھڑا ہو جائے ۔ اسی پر بس نہیں مضمرات، ہندیہ میں ہے: یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ حي علی الفلاح۔ اگر اقامت کے وقت کوئی شخص آیا تو اسے کھڑے ہو کر اقامت سننی مکروہ ہے وہ بیٹھ جائے اور جب ’’حي علی الفلاح‘‘ پر مؤذن پہنچے تو کھڑا ہو۔ طحطاوی علی المراقی میں ہے: ویفہم منہ کراہیۃ القیام ابتداء الإقامۃ والناس عنہ غافلون۔ مسئلہ مذکورہ سے معلوم ہوا کہ شروع اقامت سے کھڑا ہونا مکروہ ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ اب آپ ٹھنڈے دل سے سب پڑھ لیں اور فیصلہ کریں کہ دیوبندی مفتی خود گمراہ ہیں اور گمراہ گر ہیں۔ اس دیوبندی مفتی نے جو حدیث سے حوالہ دیا ہے وہ تیسری صورت کا حکم ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مسجد کے باہر حجرۂ مبارک میں تشریف رکھتے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ اقامت کہنے لگتے تو سب صحابۂ کرام کھڑے ہو جاتے اس پر فرمایا: لا تقوموا حتی تروني۔ جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو۔ اس حدیث سے صراحۃً ثابت ہے کہ اقامت کے وقت شروع ہی سے کھڑے ہونے کو حضور نے منع فرمایا۔ اور فرمایا بیٹھے رہو اگرچہ اقامت ہو رہی ہو اگر چہ ختم ہو چکی ہو، جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ میں حجرۂ مقدسہ سے باہر آگیا ہوں کھڑے نہ ہو۔ حضرت شیخ محدث عبد الحق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں فرماتے ہیں: وبرنہ خیزید براے نماز بمجرد تکبیر تا آں کہ بینید مرا، یعنی بیروں آمدند از درون خانہ۔ محض تکبیر پر نماز کے لیے کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے دیکھ نہ لو کہ میں گھر کے اندر سے باہر آگیا۔ یہ حدیث بخاری میں یوں ہے، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : قال رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- إذا أقیمت الصلاۃ فلا تقوموا حتی تروني۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اقامت کہی جائے تو تم لوگ کھڑے نہ ہو یہاں تک کہ مجھے دیکھ نہ لو۔ ’’إذا أقیمت الصلاۃ‘‘ سے مراد اقامت ہی ہے۔سند الحفاظ علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں: أي إذا ذکرت ألفاظ الإقامۃ۔ یعنی جب اقامت کے الفاظ کہے جائیں۔ اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ ضروری نہیں تھا کہ حضور اقدس ﷺ جب حجرۂ مبارکہ سے مسجد میں آجائیں اس وقت اقامت شروع کی جاتی ۔ یہ حدیث اس میں صریح ہے کہ حضور اقدس ﷺ حجرۂ مبارکہ میں ہوتے اور اذن لے کر حضرت بلال اقامت شروع فرما دیتے۔ اس لیے علامہ ابن حجر نے اس حدیث کے تحت لکھا: فیہ جواز الإقامۃ والإمام في منزلہ إذا کان یسمعہا وتقدم إذنہ في ذلک۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب امام اپنے گھر میں ہو تو اقامت کہنا جائز ہے جب کہ امام اسے سن رہا ہو اور پہلے اس سے اجازت لے لی گئی ہو۔ خلاصۂ کلام یہ نکلا کہ امام اگر مسجد کے باہر ہو اور اقامت کہی جائے تو سب لوگ اقامت بیٹھ کر سنیں۔ جب امام اگلی صف سے مسجد میں آئے اور اس پر نظر پڑے تو کھڑے ہوں اس کی تین صورتیں ہیں۔ ‘’حي علی الصلاۃ‘‘ کہنے سے پہلے آگیا تو بھی کھڑے ہو جائیں ۔’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہنے کے بعد آیا تو بھی بیٹھے رہیں۔ جب دیکھیں کہ امام مسجد میں آرہا ہے تو کھڑے ہو جائیں۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اقامت ختم ہو گئی امام نہیں آیا تو بھی بیٹھے رہیں یہاں تک کہ امام کو دیکھ لیں۔ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ امام مسجد کے باہر ہو، اور اقامت کہی جائے ۔ ہمارے دیار میں اس پر عمل نہیں۔ ہمارے دیار میں صرف پہلی صورت پائی جاتی ہے کہ امام مصلے پر بیٹھا رہتا ہے یا مصلے کے قریب رہتا ہے تو اقامت کہی جاتی ہے اس صورت میں احناف کا اس پر اتفاق ہے کہ امام اور مقتدی دونوں بیٹھے رہیں جب ’’حي علی الصلاۃ،حي علی الفلاح‘‘ کہا جائے تب کھڑے ہوں۔ اس صورت حدیث میں مذکور صورت سے کوئی تعلق نہیں وہ الگ صورت ہے۔ دونوں صورتوں کو ایک ساتھ ملانا دیانت نہیں خباثت ہے۔ رہ گیا یہ الزام کہ اگر لوگ اقامت کے وقت بیٹھتے نہیں تو ان پر طعن کیا جاتا ہے ۔ لوگوں نے اقامت کے وقت بیٹھنے کو وجوب کا درجہ دے دیا ہے۔ لوگوں کا طعن نہ بیٹھنے اور کھڑے ہونے پر نہیں بلکہ ایک ایسی چیز کو ناجائز کہنے کی بنا پر ہے جو کم از کم مستحب ہے اور کسی مستحب کو، نہیں بلکہ جائز کو حرام کہنا یقینا موجب طعن ہے اور ایسے وقت اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لانے کے بعد بھی اونٹ کا گوشت ناپسند فرماتے تھے اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۰۰۲۰۸ ۔ اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نشان قدم کی پیروی نہ کرو۔ بےشک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے ۔ اونٹ کا گوشت کھانا مستحب نہیں صرف جائز ہے اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ اس کو جائز جانتے تھے صرف اس کو ناپسند فرمایا تو جو شخص ایک مستحب کو حرام جانے اس کی گوشمالی کتنی ضروری ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved