8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک جماعت اپنے امام سے یہ کہتی ہے کہ امام صاحب آپ حجرہ شریف سے مکبر کے اللہ اکبر کہنے سے پہلے مصلے پر چلے آئیں۔ اس کی دلیل میں صحیح مسلم شریف مترجم جلد اول،ص:۵۲۰ ،کتاب المساجد کی یہ دو عبارتیں پیش کرتے ہیں: (1) عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ تُقَامُ لِرَسُولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- فَيَأْخُذُ النَّاسُ مَصَافَّهُمْ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ النَّبِيُّ -صلى الله عليه وسلم- مَقَامَهُ. (2) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ بِلاَلٌ يُؤَذِّنُ إِذَا دَحَضَتْ فَلاَ يُقِيمُ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- فَإِذَا خَرَجَ أَقَامَ الصَّلاَةَ حِينَ يَرَاهُ. دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ امام صاحب آپ حجرے سے مکبر کے ’’حي علی الفلاح‘‘ کہنے پر ہی مصلے پر آئیں اس کی دلیل میں بخاری ومسلم ومشکاۃ،ص: ۶۷ ،مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں: عَنْ أَبِى قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: « إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي قَد خَرَجْتُ». مؤطا شریف،ص:۸۶، ۸۷ کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں: ینبغي للقوم إذا قال المؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ أن یقوموا إلی الصلاۃ فیصفوا ویسووا الصفوف۔ شرح وقایہ اول،ص:۱۵۵ کی یہ عبارت : یقوم الإمام والقوم عند ’’حي علی الصلاۃ‘‘۔ کتاب محیط کی یہ عبارت: یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ عند علمائنا الثلاثۃ ہو الصحیح۔ کتاب مضمرات کی یہ عبارت بھی پیش کرتے ہیں کہ إذا دخل الرجل عند الإقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما لکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ ’’حي علی الفلاح‘‘۔ کتاب وسنت کے اعتبار سے امام صاحب کے لیے کیا حکم ہے اور امام کس وقت باہر نکلے؟

فتاویٰ #1522

----- بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ غیر مقلدین اور دیوبندی اپنی گمراہ گردی کی وجہ سے بے پڑھے لکھے عوام کو خلفشار میں مبتلاکرتے ہیں، ہم احناف پر واجب ہے کہ ہمارے ائمہ نے جو کچھ فرمایا ہے اس پر عمل کریں ۔ ائمۂ کرام نے قرآن مجید اور احادیث کریمہ سے جو مسائل استخراج فرمائے ہیں ہم کو ان پر عمل کرنا واجب ہے ۔ ہر جاہل غبی کو یہ حق حاصل نہیں کہ احادیث کے تراجم دیکھ کر مجتہدوں کی طرح اجتہاد کرنے لگے۔ اجتہاد کے لیے جو شرائط ہیں وہ اردو داں غیر مقلدین میں تو کیا ہوں گے ان کے بڑے بڑے محدث اور مجتہد بننے والوں میں نہیں پائے جاتے۔ غیر مقلدین کے سب سے بڑے مجتہد شیخ الکل فی الکل جناب نذیر حسین دہلوی پر صرف ایک مسئلہ میں مجدد اعظم اعلی حضرت قدس سرہ نے گرفت فرمائی ہے سو (۱۰۰) سال سے زائد ہو ئے کوئی غیر مقلد اس کا جواب نہیں دے سکا اور نہ قیامت تک دے سکے گا۔ پہلے حکم شرعی سنیے: • اگر امام اور مصلی سب مسجد میں ہوں تو سب اقامت بیٹھ کر سنیں۔ ’’حي علی الصلاۃ ، حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں، شروع اقامت ہی سے کھڑے ہو جانا مکروہ ہے جیسا کہ مضمرات اور عالمگیری اور شامی میں ہے۔ • اور اگر نمازی مسجد میں ہوں اور امام مسجد کے باہر مثلا حجرے میں اور اقامت کہی جائے تو سب لوگ بیٹھے رہیں۔ امام اگر آگے کی طرف سے آئے تو جس کی نظر امام پر پڑجائے وہ کھڑا ہو جائے خواہ مکبر ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ تک نہ پہنچا ہو بلکہ اگر اقامت ختم ہو جائے اور امام مسجد میں نہ آئے تو سب بیٹھے رہیں۔ • اور اگر امام مسجد کے باہر ہے اور صف کے پیچھے سے مسجد میں آئے تو جس صف کے پاس پہنچے کھڑی ہو جائے۔ فقہ حنفی کی تمام کتابوں میں یہ مسئلہ شرح وبسط کے ساتھ لکھا ہوا ہے، یہ ضروری نہیں کہ اقامت کے وقت امام مسجد میں ہو یا مصلے پر بیٹھا ہو، امام کو اس کا پابند کرنا کہ اقامت شروع ہوتے ہی مصلے پر آکر بیٹھ جائے شریعت پر زیادتی ہے ۔ امام کو اختیار ہے کہ اقامت کے وقت مصلے پر رہے یا اپنے حجرے میں رہے۔ اب رہ گیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہما اور بخاری وغیرہ کی حدیث ’’لا تقوموا حتی تروني‘‘ میں کوئی تعارض نہیں، ان دونوں میں منافات سمجھنا اعلی درجے کی کندذہنی ہے، ابتدا میں اس بارے میں کوئی حکم نہیں تھا کہ لوگ اقامت کے وقت کھڑے رہیں یا بیٹھے رہیں۔ صحابہ اپنی صواب دید کے مطابق کھڑے رہتے تھے پھر بعد میں ان کو منع کر دیا گیا کہ اقامت کے وقت کھڑے نہ رہو بیٹھے رہو جب مجھے دیکھو تو کھڑے ہو ۔ آپ خود غور کریں ممانعت اسی چیز سے ہوتی ہے جو رائج ہو اور شریعت کو ناپسند ہو تو ’’لاتقوموا‘‘ ہی سے سمجھ میں آیا کہ اس ارشاد سے پہلے صحابۂ کرام شروع اقامت ہی سے کھڑے رہتے تھے مگر یہ چیز ناپسند تھی اس لیے منع فرما دیا گیا۔ جس چیز سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرما دیا اس پر عمل کرنے کی کوشش ایمان کی بات نہیں۔ وہ دن دور نہیں جب دیوبندی اور غیر مقلدین شراب پینے لگیں اور ثبوت میں شراب کی ممانعت سے پہلے والے واقعات پیش کریں ۔ ایمان کے ساتھ اگر عقل ہوتی تو ممانعت کے بعد کبھی اُس فعل کو پسند نہیں کرتے جو صحابۂ کرام کا ممانعت سے پہلے کا تھا۔ خلاصہ یہ کہ حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں جو مذکور ہے وہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس ارشاد ’’لا تقوموا حتی تروني‘‘ سے منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved