8 September, 2024


دارالاِفتاء


مؤذن یا مکبر جب نماز کے لیے اقامت کہے تو امام اور مقتدیوں کو کس وقت کھڑا ہونا چاہیے آیا ابتداے اقامت یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر کے وقت ہی، یا أشہد أن محمدا رسول اللہ ، یا حي علی الفلاح کے وقت- اولیٰ، افضل اور سنت طریقہ کیا ہے۔ احادیث شریفہ اور مستند فقہی حوالاجات کے ساتھ جواب مرحمت فرمایا جائے۔

فتاویٰ #1509

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: ہمارے ائمۂ احناف کا اس پر اتفاق ہے کہ جب امام محراب میں یا محراب کے قریب ہو تو امام اور سب مقتدیوں کو بیٹھے رہنا چاہیے ’’حي علی الصلاۃ ‘‘یا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونا چاہیے۔ امام حسن بن زیاد اور امام زفر یہ فرماتے ہیں کہ ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر کھڑے ہوں ۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: ’’والقيام لإمام ومؤتم حين قيل ’’حي علی الفلاح‘‘ خلافا لزفر۔ إن كان الإمام بقرب المحراب.‘‘ اس کے تحت شامی میں ہے: كذا في الكنز ونور الإيضاح والإصلاح والظهيرية والبدائع وغيرها. والذي في الدرر متناً وشرحاً عند الحيعلة الأولى يعني حيث يقال ’’حي على الصلاة‘‘ إهـ. وعزاه الشيخ إسماعيل في شرحه إلى عيون المذاهب والفيض والوقاية والنقاية والحاوي والمختار ا هـ . قلت واعتمده في متن الملتقى وحكى الأول بـ قيل لكن نقل ابن الكمال تصحيح الأول ۔ ونص عبارته قال في الذخيرة: يقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن ’’حي على الفلاح‘‘ عند علمائنا الثلاثة. وقال الحسن بن زياد وزفر: إذا قال المؤذن ’’قد قامت الصلاة‘‘ قاموا إلى الصف، وإذا قال مرة ثانية كبروا والصحيح قول علمائنا الثلاثة ا هـ. عالمگیری میں ہے: إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم عند ’’حي علی الفلاح‘‘ عند علمائنا الثلاثۃ وہو الصحیح۔ یہ کل بائیس کتابیں ہوئیں ان سب میں یہ تصریح ہے کہ شروع اقامت کے وقت کھڑا نہ رہے بیٹھ جائے ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہو یا ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہو۔ مجدد اعظم امام احمد رضا قدس سرہ نے یہ تطبیق دی ہے کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر اٹھنا شروع کرے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھا کھڑا ہو جائے۔ ’’أشہد أن محمدا رسول اللہ‘‘ پر بیٹھا رہے اس وقت کھڑے ہونے کا قول نہیں بلکہ مضمرات، عالمگیری اور شامی میں ہے کہ اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں آیا کہ اقامت ہو رہی ہو تو بیٹھ جائے کھڑا رہنا مکروہ ہے۔ شامی میں ہے : واللفظ للہندیۃ إذا دخل الرجل عند الإقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ ’’حي علی الفلاح‘‘، کذا في المضمرات۔ اور کراہت سے عند الاطلاق کراہت تحریمی متبادر اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب گناہ ہے ۔ احادیث میں اس مخصوص صورت کی کوئی تفصیل میری نظر سے نہیں گزری۔ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب جماعت کا وقت ہو جاتا تو حضرت بلال در اقدس پر حاضر ہو کر اجازت طلب کر تے اجازت کے بعد اقامت کہنا شروع کرتے پھر حضور تشریف لاتے ابتدا میں صحابۂ کرام شروع اقامت ہی سے کھڑے ہو جاتے اس پر ارشاد فرمایا کہ :لا تقوموا حتی تروني۔ مرقات وغیرہ میں اس کی شرح میں فرمایا: ’’من الحجرۃ الشریفۃ ‘‘۔ شروع ہی سے کھڑے مت رہا کرو جب مجھے دیکھ لو کہ حجرہ شریفہ سے باہر نکل چکا تو کھڑے ہو ۔ شارحین نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ حضور اقدس ﷺ اس وقت حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لاتے ہوں جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ ،حي علی الفلاح‘‘ کہنا شروع کرتا ہو ۔ فقہاے کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ اگر امام محراب کے قریب یا محراب میں ہو اور امام کے علاوہ کوئی اور اقامت کہے جیسا کہ ہمارے دیار میں دستور عام ہے بلکہ بعض جگہ تو اس وقت تک اقامت نہیں کہتے جب تک امام مصلے پر آنہ جائے۔ اس وقت حکم یہ ہے کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں۔ لیکن امام اگر مسجد سے باہر ہو اور اقامت کہی جانے لگے اور امام مسجد میں صفوں کے آگے سے داخل ہو تو اس وقت تک نہ کھڑے ہوں جب تک کہ امام کو دیکھ نہ لیں، امام کو دیکھتے ہی کھڑے ہو جائیں اگر چہ شروع اقامت ہو۔ جب تک امام کو دیکھ نہ لیں نہ کھڑے ہوں اگر چہ اقامت ختم ہو جائے ۔ اور اگر اقامت کے وقت امام مسجد سے باہر ہے اور اقامت کے اثنا میں صف کے پیچھے سے آئے تو جس صف کے پاس پہنچے وہ کھڑی ہوجائے۔ یہاں بھی یہ تفصیل ہے کہ اگر بالفرض اقامت ختم ہو جائے اور امام مسجد میں نہ آئے تو بھی بیٹھے رہیں جب امام مسجد میں آئے تو جس صف کے پاس پہنچے وہ کھڑی ہو جائے۔ حدیث میں جو صورت مذکور ہے وہ یہی ہے۔ حضور اقدس ﷺ اقامت شروع ہونے کے بعد حجرۂ مبارک سے باہر تشریف لاتے اور صف کے آگے سے مسجد میں داخل ہوتے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved