8 September, 2024


دارالاِفتاء


بحوالہ آپ کے جواب فتوی ۲۷؍ شوال ۱۳۹۹ھ بسلسلہ اذان خطبہ اندرون مسجد یا بیرون مسجد۔ آپ نے اپنے فتوی میں لکھا ہے کہ ’’خطبہ کی اذان مسجد کے باہر خطیب کے سامنے ہو۔ یہی سنت ہے‘‘۔ (۱) آپ کے فتوے کے یہ الفاظ غور طلب ہیں کہ مسجد کے باہر ہونا اور خطیب کے سامنے ہونا ضروری تو نہیں؟ کیوں کہ خطبہ کے لیے جو منبر مسجدوں میں بنایا جاتا ہے وہ اندرون مسجد ہوتا ہے ۔ مؤذن اگر باہر سے اذان دےگا تو خطیب کا سامنا کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ اب تک جو مساجد بنائی گئیں ہیں وہ سنت کے موافق نہیں کیوں کہ ان میں اذان خطبہ کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے اور اب تک اندرون مسجد منبر کے سامنے اذان خطبہ سنت کے خلاف دی جاتی رہی یا یہ کہ آپ کا فتوی غلط ہے۔ دو باتوں میں سے ایک کو ماننا ہی پڑے گا۔ اگر آپ کے فتوے کو مان لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آج کل جملہ بلاد اسلامیہ ، حرمین شریفین میں جو اذان خطبہ اندرون مسجد منبر کے سامنے ہوتی ہے وہ نعوذ باللہ سنت کے خلاف ہے حالاں کہ ایسا نہیں ہو سکتا جملہ بلاد اسلامیہ ، حرمین شریفین کے مسلمان کسی غیر سنت فعل پر عملاً متفق ہوں۔ اور اگر بقول آپ کے فتوی کے اذان خطبہ بیرون مسجد مان لیا جائے تو یہ اعتراض اٹھتا ہے کہ اب تک یہ طریقہ سنت کہاں تھا؟ علما نے کیوں اس پر عمل نہیں کیا اور نہ کرایا؟ (۲) آپ نے جو حدیث ابو داؤد شریف کی حوالہ میں نقل کی ہے اس کے راویوں میں ایک راوی ابو اسحاق بھی ہیں جو ضعیف راوی ہیں۔ آپ کی پیش کردہ رواۃ کے برعکس علامہ عینی نے قول صاحب ہدایہ ذلک جری الثوارث کے تحت یہ لکھا ہے کہ منبر کے سامنے اذان خطبہ دینا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے سے توارث کے درجہ میں ہے۔ نیز اکابر فقہاے حنفیہ مثلاً شامی نے اذان خطبہ کے سلسلہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ منبر کے پاس ہونی چاہیے(ص:۸۶۰- طحطاوی،ص:۲۸۲) وقال الطحطاوي : والمعتبر ہو الأذان الثاني بین یدي المنبر لأنہ کان في زمنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم والشیخین بعدہ۔ علامہ عینی نے تو شرح ہدایہ، ص:۱۰۱۴ پر یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر اذان خطبہ مسجد کے باہر کہیں اور دی جائے ،مثلا منارہ یا بیرون مسجد وغیرہ تو اس سے اداے سنت کا فوت ہونا ہو سکتا ہے۔ بہر حال آپ کی تحریر کردہ حدیث کے برعکس فقہ حنفیہ کی معتبر کتابوں سے یہی ثابت ہے اذان خطبہ منبر کے پاس خطیب کے سامنے ہونی چاہیے۔ نیز اجماع علماے حنفیہ بھی اور عمل حرمین شریفین بھی اس پر ہے کہ اذان خطبہ منبر کے پاس خطیب کے سامنے ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر آپ کے فتوے کو سنت کے موافق مانا جائے تو اجماع صحابہ اور امت ، اقوال جمہور علماے حنفیہ اور عمل حرمین شریفین کا ابطال لازم آئے گا۔ آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ براے کرم جلد از جلد حوالے دیں نیز امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے اقوال عالیہ بھی اس کے سلسلے میں تحریر میں لائیں کہ اطمینان کلی ہو اور اس کے موافق عمل کیا جائے۔ فقط والسلام

فتاویٰ #1506

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: (1-2) اذان خطبہ کے مسجد کے باہر ہونے کے مسنون ہونے پر میں نے حدیث صحیح سے استدلال کیا۔ اس کے جواب میں آپ مسجد وں کی ساخت کو پیش کر رہے ہیں۔ حدیث کے مقابلے اس قسم کا اجتہاد پیش کرنا کیسے درست ہے؟ اس کو آپ اپنے ایمان سے پوچھیں۔میں نے ابو داؤد شریف کی جو حدیث پیش کی ہے اس میں صاف صاف ہے کہ یہ اذان عہد رسالت وعہد خلفاے راشدین میں منبر کے سامنے اور مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی۔ مسجد اقدس عہد مبارک میں سو ہاتھ لمبی سو ہاتھ چوڑی تھی۔ در مختار میں ہے: وہو مائۃ في مائۃ ذراعٍ الخ۔ اور یہ دروازہ جس پر اذان خطبہ ہوتی تھی ، دروازہ شمالی تھا۔ منبر اقدس کی پیمائش نہیں معلوم پھر بھی اندازہ ہے کہ یہ دروازہ تقریباً ۹۶؍ ہاتھ کی دور ی پر ضرور تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اس اذان کا منبر کے متصل ہونا ضروری نہیں۔ نیز یہ کہ منبر اقدس دروازے کے سامنے تھا۔ مسجد بنانے والوں کو لازم تھا کہ وہ بھی مسجد بنوانے میں اس کا لحاظ کرتے۔ اور انھوں نے لحاظ نہیں کیا تو مسجد بنوانے والوں کی بات کو درست کر نے کے لیے حدیث کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ اس حدیث کے راویوں میں کوئی ابو اسحاق راوی نہیں البتہ محمد بن اسحاق ہیں اور یہ بلا شبہہ ثقہ ہیں۔ امام بخاری نے بخاری شریف میں ان کا قول بطور دلیل پیش کیا ہے۔ کتاب المغازی میں ہے: قال ابن اسحاق أول ما غزا۔ إلخ۔ اور اپنی کتاب جزء القراءت میں ان کی روایت کو درج کیا ہے۔ علامہ عینی شرح بخاری میں فرماتے ہیں: استشہد بہ البخاري في الصحیح وروی لہ في کتاب القراءۃ خلف الإمام وغیرہ، وروی لہ مسلم في المتابعات واحتجت بہ الأربعۃ۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں ان کے قول سے استشہاد کیا ہے اور قراءت خلف الإمام اور اپنی دوسری تصنیفات میں ان سے روایت کی ہے۔ امام مسلم نے متابعات میں ان کی روایت ذکر کی ہے۔ چاروں ائمہ ان کی احادیث سے دلیل لاتے ہیں۔ امام بخاری ومسلم کا ان کی حدیث کو قبول کرنا اور ائمہ اربعہ کو ان کی حدیث کا دلیل بنانا ان کے ثقہ ہونے کے لیے کافی ہے۔ یہ آپ نے غلط کہا ہے کہ آج کل اذان خطبہ حرمین طیبین میں بھی منبر کے متصل ہوتی ہے۔ مسجد حرام میں کنارۂ مطاف پر ہوتی ہے اور عہد نبوی میں مسجد حرام مطاف ہی تک تھی۔ مسلک متقسط میں ہے: ’’المطاف ہو ما کان في زمنہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- مسجدا‘‘۔ اور مسجد نبوی میں منبر اقدس کے کافی فاصلے پر ہوتی ہے۔ اب نجدیوں نے بدل دیا ہو تو دوسری بات ہے ترکیوں کے عہد تک یہی تھی۔ اور یہ بات اپنی جگہ طے ہے کہ تمامیت مسجد سے قبل جو جگہ اذان یا وضو کے لیے بنائی گئی وہ خارج مسجد ہوگی۔ اور وہاں اذان جائز ہے وہاں وضو کرنا بھی منع نہیں۔ حالاں کہ مسجد میں وضو کرنا منع ہے۔ مسجد شاہ جہانی دہلی میں بھی اس اذان کے لیے ایک مکبرہ بنا ہے وہاں ہوتی ہے منبر کے متصل نہیں ہوتی جیسے وضو کے لیے حوض بھی بیچ صحن میں ہے۔ حرمین طیبین میں دونوں مقدس مساجد میں اس اذان کا منبر کے متصل نہ ہونا دلیل ہے کہ اس اذان کو منبر کے متصل خطیب کے سر پر کہنا تعامل حرمین کے خلاف ہے۔ اب آپ بتائیے کیا کہتے ہیں؟ عینی شرح ہدایہ یہاں نہیں البتہ ہدایہ ہے اس کی عبارت یہ ہے: إذاصعد الإمام المنبر جلس وأذن المؤذنون بین یدي المنبر بذلک جری التوارث ولم یکن علی عہد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم إلا ہذا الأذان۔ جب امام منبر پر چڑھے تو بیٹھ جائے اور مؤذن منبر کے سامنے اذان دے اسی پر توارث جاری ہے اور عہد اقدس میں صرف یہی اذان تھی۔ ہدایہ میں منبر کے متصل ہونے کی تصریح نہیں منبر کے سامنے ہونے کی ہے۔ وہی ’’بین یدیہ‘‘ کا لفظ جو ابو داؤد میں ہے یہاں بھی ہے۔ وہاں ’’بین یدیہ‘‘ چھیانوے ہاتھ کی دوری تک ممتد تھا تو ہماری مسجدوں میں بھی ممتد ہوگا۔ غالبا علامہ عینی نے اسی کو فرمایا ہے کہ بقیہ اذانوں کے لیے کوئی سمت مقرر نہیں منبر کے سامنے ہو، در میں ہو، باہر ہو مگر اذان خطبہ میں توارث یہی ہے کہ خطیب کے سامنے ہو۔ یقین کیجیے عینی میں بھی منبر کے متصل ہونے کی تصریح نہ ہوگی۔ اب عینی کی اصل عبارت نقل کر کے بھیجیں۔آپ نے جو عبارت نقل کی ہے اس میں بھی ’’بین یدي المنبر‘‘ ہے۔ اور حدیث نے بتایہ ’’بین یدي‘‘ کے معنی منبر کے متصل ہونا نہیں ۔ یہ چھیانوےکی دوری پر صادق ہے بلکہ بنص قرآن ہزاروں ہزار میل کی دوری پر بھی صادق ارشاد ہے : ’’ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ ‘‘۔ کیا آپ کا ایمان یہ گواہی دےگا کہ صرف متصل مراد ہے۔ لہذا اس عبارت سے منبر کے قریب ہونے پر دلیل لانا ساقط ۔ یوں ہی در مختار میں بھی ’’بین یدیہ‘‘ ہے۔ شامی میں نہ ’’بین یدیہ‘‘ ہے نہ یہ مسئلہ مذکور ہے۔ اور نہ آپ کی مذکورہ عبارت ہی ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے اتنی بڑی جسارت کیسے کی۔ فرضی عبارت پیش کرنے والے سے اس کی کیا شکایت کہ وہ جھوٹا دعوی کرتا ہے کہ فقہ حنفیہ کی معتبر کتابوں سے یہی ثابت ہوتا ہے، اذان خطبہ منبر کے پاس خطیب کے سامنے ہونی چاہیے۔ نیز اجماع صحابہ اور اقوال جمہور علماے حنفیہ بھی اور عمل حرمین شریفین بھی اس پر ہے کہ اذان خطبہ منبر کے پاس خطیب کے سامنے ہوتی ہے۔ آپ نے صرف ایک عبارت پیش کی اس میں بھی منبر کے پاس کا کوئی لفظ نہیں ہے تو ’’بین یدی‘‘۔ اس کے معنی سامنے کے ہیں ، پاس کے نہیں، حوالہ شامی کا دیا، صفحہ بھی لکھا مگر شامی میں یہ عبارت نہیں۔ طحطاوی کا حوالہ دیا ۔ طحطاوی دو ہیں۔ طحطاوی علی الدر ، طحطاوی علی المراقی کس میں ہے یہ آپ کو بھی معلوم نہیں۔ اور دعوی اتنا بڑا کہ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں ،آخر تک۔۔۔پھر بھی اسی پر بس نہیں، اجماع صحابہ کا دعوی، جمہور علماے حنفیہ کا دعوی، عمل حرمین طیبین کا دعوی اور سب غلط۔ صحابہ کے اجماع کا دعوی غلط اس پر دلیل حدیث ابوداؤد ہے۔ حرمین طیبین کے عمل کا بھرم آج بھی وہاں جاکر دیکھ کر کھل سکتا ہے۔ رہ گئے اقوال علماے احناف تو لیجیے احناف بالاتفاق مسجد میں اذان کہنے کو منع فرماتے ہیں۔ خانیہ، خلاصہ قلمی، خزانہ قلمی، عالمگیری، بحر الرائق، شرح نقایہ برجندی میں ہے : لا یؤذن في المسجد۔ مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے۔ غنیہ میں ہے: الأذان إنما یکون في المئذنۃ أو خارج المسجد۔ اذان مئذنہ پر دی جائے یا مسجد کے باہر۔ البحر الرائق میں ہے: قالوا لا یؤذن في المسجد۔ فقہا نے فرمایا: مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے۔ طحطاوی علی المراقی میں ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد کما في القہستانی عن النظم۔ نظم امام زندویستی ، پھر قہستانی میں ہے: کہ مسجد میں اذان مکروہ ہے۔ اور مکروہ سے عند الاطلاق مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے اور ہر مکروہ تحریمی گناہ ہے۔ فتح القدیر خاص باب الجمعہ میں ہے: لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ یہ بارہ کتب فقہ کی عبارات ہیں جن میں تصریح ہے کہ مسجد کے اندر اذان نہ کہی جائے۔ مسجد میں اذان مکروہ ہے ۔ اس میں نہ نماز پنج گانہ کی تخصیص ہے اور نہ اذان خطبہ کا استثنا۔ لہذا یہ اذان خطبہ کو بھی شامل کہ یہ بھی مسجد کے اندر ممنوع ومکروہ ہے۔ بنا ء علیہ مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی نے عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھا: قولہ بین یدیہ أي مستقبل الإمام في المسجد کان أوخارجہ والمسنون ہو الثاني۔ اس قول ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی امام کے سامنے کے ہیں ۔سامنا اندر بھی ہے اور باہر بھی اور مسنون ثانی ہے۔ یعنی اذان خطبہ کا مسجد کے باہر ہونا ۔ دیکھا آپ نے کہ علماے احناف کا اس پر اتفاق ہے کہ مسجد میں کوئی بھی اذان دینے کی اجازت نہیں۔ نہ پنج گانہ نہ خطبے کی۔ اور آپ نے اس کے خلاف کا دعوی کیا ہے۔ جو کس قدر حیرت انگیز ہے۔ اب مزید تشفی کے لیے ابو داؤد شریف کی اس حدیث کو پھر مع توضیح ضرور سن لیں۔ حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں صرف اذان خطبہ ہی تھی جو منبر اقدس کے سامنے مسجد کے دروازہ شمال پر ہوتی تھی۔ حضرت صدیق اکبر و فاروق اعظم اور اوائل عہد ذو النورین رضی اللہ تعالی عنہ میں بھی یہی ایک اذان تھی جو منبر اقدس کے سامنے مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی۔ جب مدینہ طیبہ کی آبادی بہت بڑھ گئی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلی اذان کا اضافہ کیا۔ جو بازار میں مقام زوراء پر ہوتی اور یہ اذان خطبہ بدستور وہیں ہوتی رہی جہاں عہد رسالت میں ہوتی آئی تھی۔اور آج کا حال نہیں معلوم مگر ترکیوں کے عہد تک منبر کے متصل کبھی نہیں ہوئی بلکہ منبر کے کافی فاصلے پر مکبرہ پر ہوتی تھی۔ اور مسجد حرام میں بھی منبر کے قریب متصل نہیں ہوتی تھی بلکہ مطاف کے کنارے پر ہوتی تھی۔ ترکیوں کے عہد تک اور عہد رسالت میں مطاف ہی تک مسجد حرام تھی لہذا کنارۂ مطاف خارج مسجد ہوا۔ دہلی میں جامع مسجد میں بھی یہ اذان منبر کے متصل نہیں ہوتی صحن میں مکبرہ پر ہوتی ہے اب ٹھنڈے دل سے ان سب باتوں پر غور کریں گے تو کوئی شک نہیں رہ جائے گا کہ سنت ہے کہ خطبے کی اذان مسجد کے باہر منبر کے سامنے ہو۔ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اس کو اپنے متعدد رسالوں اور فتاوی میں بدلائل قاہرہ ذکر فرمایا ہے۔ آپ ملاحظہ کریں: أذان من اللہ، أوفی اللمعۃ، وقايۃ أہل السنۃ‘‘ اور فتاوی رضویہ جلد دوم وسوم۔ ان سب میں تصریح کی ہے کہ اذان منبر کے متصل مسجد میں دینا سنت کے خلاف ہے بدعت ومکروہ تحریمی ہے۔ جائز نہیں۔ مسجد کے باہر خطیب کے سامنے دینا سنت ہے۔ نیز یہ بھی تصریح کی ہے کہ سامنے کا مطلب یہ نہیں کہ مسامتت میں ہو بلکہ زاویہ قائمہ کے اندر اندر ہو۔ یہی سامنے ہونے کو کافی ہے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved