بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: صحیح یہی ہے کہ خطبے کی اذان مسجد کے باہر خطیب کے سامنے دی جائے، صحاح ستہ کی مشہور کتاب سنن ابی داؤد میں ہے: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رضي اللہ تعالی عنہما رسول اللہ ﷺ جب جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی اور ایسا ہی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں ہوتا تھا ۔ جب اذان حضور اقدس ﷺ اور خلفاے راشدین کے مبارک زمانے میں مسجد کے باہر ہوتی تھی تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہی سنت ہے، اس کے خلاف مسجد کے اندر منبر کے متصل دلانا بدعت اور ممنوع ہے ، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حضور اقدس ﷺ یا خلفاے راشدین نے مسجد کے اندر اذان دلائی ہو۔ کسی ضعیف سے ضعیف حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں۔ اگر مسجد کے اندر اذان دلانا جائز ہوتا تو بیان جواز ہی کے لیے کبھی مسجد کے اندر اذان دلاتے۔ مگر کبھی ایک بار بھی مسجد کے اندر اذان نہیں دلائی۔ ان حضرات نے ہمیشہ باہر دلائی تو اس سے ثابت ہوا کہ اذان خطبہ مسجد کے اندر دینا ممنوع ہے اسی لیے فقہاے کرام نے ارشاد فرمایا: لا یؤذن في المسجد۔ جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی،خزانۃ المفتیین، البحر الرائق، فتاوی عالمگیری، فتاوی خانیہ، فتح القدیر، شرح نقایہ علامہ برجندی میں ہے۔ فتح القدیر خاص باب الجمعہ میں ہے: لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ نظم امام زندویستی ، قسہتانی ،پھر مراقی الفلاح میں ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد ۔مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے ۔ اس میں نہ تو نماز پنج گانہ کی تخصیص ہے نہ اذان جمعہ کا استثنا مطلق ہے اور یہ اذان خطبہ کو بھی شامل ہے۔ اسی لیے علامہ عبد الحی لکھنوی نے عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھا: قولہ بین یدیہ أي مستقبل الإمام في المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثاني ۔ سنت یہی ہے کہ اذان خطبہ مسجد کے باہر دی جائے۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اذان خطبہ مسجد کے باہر خطیب کے سامنے دلائیں۔ مسجد کے اندر منبر کے متصل ہر گز ہرگز نہ دلائیں۔ مسجد کے اندر منبر کے متصل اذان دلانا بدعت سیئہ اور ممنوع ہے۔ غنیۃ الطالبین سرکار غوث اعظم کی تصنیف کردہ ہے یہی ثابت نہیں ، بہت سے علما کو اس سے انکار ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی تصنیف ہے۔ اور اگر بالفرض حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی تصنیف ہے بھی تو اس پر سارے علما کا اتفاق ہے کہ اس میں کافی الحاقات ہیں یعنی کچھ ناخدا ترس لوگوں نے اس میں اپنی طرف سے بڑھا دیا ہے ۔ پہلے مطبع نہیں تھے، کتاب ہاتھ سے نقل کی جاتی تھی، کچھ نقل کرنے والے اغراض فاسدہ کے لیے کتاب میں اپنی طرف سے بڑھاکر لکھ دیتے تھے، بزرگان دین کی بہت سی کتابوں میں ایسا ہوا ہے۔ اس لیے یہ قطعی ہے کہ غنیۃ الطالبین سے زید نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا جو قول نقل کیا ہے وہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہرگز ہرگز نہیں، یہ کسی ناخداترس کا الحاق ہے۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ حدیث صحیح کے خلاف کیسے کوئی حکم تحریر فرما سکتے ہیں؟سرکار غوث اعظم اپنے عہد میں علم ظاہر کے بھی امام تھے ۔ شمس بریلوی صاحب کون ہیں میں نہیں جانتا جب کہ میں بریلی شریف کے مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے عہد سے لے کر آج تک کے تمام علما سے واقف ہوں ایسا بہت ہوتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو بڑا اور معتمد ظاہر کرنے کے لیے ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں ۔ پاکستان جانے والوں میں سے بہت سے لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org