8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہمارے قصبہ کی مسجد میں اگست ۱۹۹۷ء سے اذان واقامت کے پہلے مؤذن صاحب بآواز بلند درود شریف اور الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ، الصلاۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ کہتے ہیں۔ حاصل طلب چند سوالات ہیں: (۱) مؤذن کا یہ عمل شریعت (قرآن وحدیث کی روشنی میں) صحیح ہے یا غلط ؟اگر صحیح ہے تو اسے اگست ۹۷ء کے پہلے کیوں نہیں کیا گیا، اگر صحیح ہے تو دیگر مقامات پر اہل سنت وجماعت کی مساجد میں کیوں نہیں کیا جاتا؟ (۲) مؤذن کی غیر حاضری میں کوئی شخص اس عمل کے بغیر اذان اور اقامت کہتا ہے تو اسے غلط مانا جاتا ہے، یا ایسے شخص کو اذان واقامت کے لیے نہیں کہا جاتا؟ (۳) اگر یہ عمل صحیح نہیں ہے تو اسے کیسے روکا جائے کیوں کہ منع کرنے والے کا وہابی کہہ کر مذاق اڑا دیا جاتا ہے، یا اس کی بات سنی ہی نہیں جاتی ہے۔ (۴) اگر یہ عمل غلط ہے تو اس کو شروع کرنے والے اور ساتھ دینے والوں کے ساتھ کیا عمل کیا جائے اور یہ کس طرح رد کیا جائے۔ (۵) کیا یہ بدعت ہے؟

فتاویٰ #1470

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: (۱-۵) مؤذن کا یہ فعل صحیح ومستحسن ہے کہ وہ اذان واقامت سے پہلے درود شریف پڑھتاہے۔ اللہ عزوجل نے ہمیں مطلقا حکم دیا ہے کہ ہم درود وسلام پڑھیں ، ارشاد ہے: ’’ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۵۶ ‘‘ اس میں کسی وقت کی تخصیص نہیں اور نہ کسی خاص طریقہ کا بیان ہے۔ جس میں اذان واقامت کے پہلے بھی داخل ہے؟ ہم جس وقت بھی جیسے بھی درود وسلام پڑھیں گے اس حکم خداوندی کی تعمیل ہوگی اور پڑھنے والا ثواب کا مستحق ہوگا۔ چوں کہ اذان واقامت سے پہلے درود شریف پڑھنے سے کہیں کوئی ممانعت نہیں اس لیے یہ جائز ، نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور باعث ثواب ہوگا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص نماز فجر کے بعد بیٹھ کر قرآن مجید دیکھ کر بلاناغہ تلاوت کرتا ہے، ہر مسلمان جانتا ہے کہ یہ کار ثواب ہے حالاں کہ قرآن وحدیث میں کہیں اس کا حکم نہیں کہ نماز فجر کے بعد بیٹھ کر قرآن مجید دیکھ کر تلاوت کرے اور نہ حضور اقدس ﷺ اور صحابہ سے منقول ہے ۔اس کا سبب یہی ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں مطلقاً حکم دیا ہے کہ ’’فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ‘‘ یہ حکم مطلق ہے کسی وقت کی تخصیص نہیں اور نہ کسی ہیئت کی تخصیص ہے، ہم جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کریں گے جیسے بھی کریں گے اس حکم خداوندی کی تعمیل ہوگی اور ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اسی طرح درود وسلام کا معاملہ ہے اگر لوگ اس سے منع کرنے والے کو وہابی کہتے ہیں تو غلط نہیں کہتے۔ وہابیوں ہی کا طریقہ ہے کہ وہ حضور اقدس ﷺ کی تعظیم وتکریم سے جلتے ہیں اور دوسرے بند کرنے کے لیے جی جان سے کوشش کرتے ہیں۔ اور ہر بات کو بدعت کہہ کر روکتے ہیں فساد مچاتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved