8 September, 2024


دارالاِفتاء


وقت عشا کے لیے ائمہ ثلثہ اور صاحبین رضوان اللہ تعالی علیہم کے نزدیک شفق سے مراد احمر ہے (کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعہ،۴۱/۱۸) تو جن آبادیوں میں شفق ابیض غائب نہ ہو، یا غیر معمولی تاخیر سے غائب ہو تی ہو وہاں نماز عشا کے لیے شفق احمر کا غائب ہونا کافی ہے کہ نہیں؟ اور ایسی صورت میں صاحبین کے قول پر فتوی درست ہے کہ نہیں؟ جب کہ بعض مسائل میں ائمۂ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے مذہب پر عمل ہوتا ہے مثلا مفقود الزوج وغیرہ۔ سفر حج سے متعلق اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ اپنی تصنیف فتاوی رضویہ جلد چہارم ،ص:۶۸۴ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اگر ثقہ معتمدہ عورتیں واپسی کے لیے ملیں تو ان کے ساتھ جائے اور انھیں کے ساتھ واپس آئے کہ تقلید غیر عند الضرورہ بلا شبہہ جائز ہے۔ کما فی الدر المختار وغیرہ۔ بینوا وتوجروا۔

فتاویٰ #1400

شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کا جواب اللہم ہدایۃ الحق والصواب الجواب ـــــــــ: وقت عشا کے تعلق سے تین احتمالات سامنے آتے ہیں: (۱) حضرت امام اعظم اور حضرات صاحبین رضی اللہ تعالی عنہم سب کے مسلک پر عشا کا وقت آتا ہو۔ (۲) ان میں سے کسی کے بھی مسلک پر عشا کا وقت نہ آتا ہو۔ (۳) حضرات صاحبین (رضی اللہ تعالی عنہم) کے مسلک پر عشا کا وقت آتا ہو، لیکن حضرت امام اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) کے مذہب پر عشا کا وقت آتا ہی نہ ہو۔ پہلی صورت میں امام اعظم کے مسلک سے عدول جائز نہیں اس لیے کہ مسلک امام سے عدول کے لیے چار باتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے ان میں سے کوئی بھی بات یہاں نہیں پائی جاتی۔ اس لیے جن لوگوں نے صاحبین کے مسلک پر فتوی دیا ہے علماے محققین نے ان کے فتوی کو رد کر دیا ہے، کیوں کہ مسلک امام ہی احوط ہے۔ دوسری صورت میں وقت مقدر مان کر نماز عشا بہ نیت قضا ادا کی جائے گی، اس لیے جن علما کا خیال یہ ہے کہ اس صورت میں وجوب ادا کی شرط کے فقدان کے سبب عشا کی نماز ساقط ہو جائے گی صحیح نہیں ۔ علماے محققین نے اس خیال کی بھی تردید فرمائی ہے۔ تیسری صورت میں صاحبین کے مسلک پر فتوی دینا بالکل درست ہے اس لیے کہ جب پہلی صورت میں بھی جب کہ امام کے مسلک پر عشا کا وقت آتا ہو یہ گنجائش تھی کہ اگر بالفرض ضعف دلیل یا ضرورت داعیہ، تعامل الناس، یا اختلاف زمان میں سے کوئی چیز موجود ہوتی تو پھر مسلک امام سے عدول جائز ہو جاتا۔ تو اس صورت میں جب کہ ان کے مسلک پر نماز عشا کا وقت آتا ہی نہ ہو بدرجۂ اولی ان کے مسلک سے عدول جائز ہونا چاہیے اور جس مسلک پر نماز قضا نہ کرنی پڑے اسے اختیار کر لینا درست قرار دینا چاہیے۔ اد ا کو قضا سے بچانے والی ضرورت بھی قابل لحاظ ضرورت ہے اور عند الضرورت مسلک غیر پر فتوی دینا فقہا میں معمول ومروج ہے جس میں سے ایک مثال فاضل مستفتی نے بھی پیش کی ہے۔ ہذا ما عندي واللہ تعالی أعلم وعلمہ جل مجدہ أتم وأحکم فقط۔ أنا الفقیر إلی حضرۃ الرب الغني السید محمد مدني الأشرفي الجیلاني حضرت شارح بخاری قدس سرہ کا جواب بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: جہاں کچھ دنوں میں شفق ابیض کے غروب اور صبح صادق کے طلوع میں اتنا وقت نہ رہتا ہو کہ عشا کی نماز اور وتر پڑھی جا سکے ان دنوں (میں) صاحبین کے مذہب کے مطابق ’’شفق احمر‘‘ کے غروب ہوتے ہی عشا اور وتر پڑھی جا سکتی ہے اگر چہ مذہب امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ پر عشا کا وقت ’’شفق ابیض‘‘ کے غروب کے بعد شروع ہوتا ہے ہر اعتبار سے قوی اور مختار للفتوی ہے، مگر صاحبین کا مذہب بھی ضعیف اور ساقط الاعتبار نہیں۔ بلکہ با قوت ہے حتی کہ اس کے بارے میں بھی ’’علیہ الفتوی‘‘ وارد ہے۔ جو ترجیح کا سب سے قوی لفظ ہے۔ تنویر الابصار ودر مختار وغیرہ میں اسی پر اقتصار فرمایا، لکھتے ہیں: وقت المغرب منہ إلی غروب الشفق وہو الحمرۃ عندہما، وبہ قالت الثلاثۃ، وإلیہ رجع الإمام کما في شروح المجمع وغیرہا فکان ہو المذہب۔ اس کے تحت شامی میں ہے: لکن تعامل الناس الیوم في عامۃ البلاد علی قولہما وقد أیدہ في النہر تبعا للنقایۃ والوقایۃ والدرر والإصلاح ودرر البحار والإمداد والمواہب وشرحہ البرہان وغیرہم مصرحین بأن علیہ الفتوی وفي السراج قولہما أوسع وقولہ أحوط۔ اگر چہ یہ صحیح نہیں کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مسئلہ میں صاحبین کے قول کی طرف رجوع فرمایا ہے ، جیسا کہ امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں اس کی تحقیق فرمائی ہے۔ مگر جب یہ اجلہ فقہا صاحبین کے اصل مذہب کو ’’علیہ الفتوی‘‘ سے مؤکد فرمارہے ہیں تو مذکورہ بالا بلاد کے مذکورہ اوقات میں اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ شیخ الاسلام علامہ مدنی میاں صاحب مدظلہ العالی نے تحریر فرمایا ہے۔ میں نے ہالینڈ کے ایک سوال کے جواب میں اسے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved