26 December, 2024


دارالاِفتاء


ضروری گزارش یہ ہے کہ بدنام زمانہ وہابی دیوبندی ایک مسئلہ بہار شریعت کا اچھالتے ہیں جس سے بھولے بھالے سنی مسلمان پریشان ہیں، اور میری بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ میں نے حضرت مولانا مفتی رضوان الرحمن مفتیِ مَالُوہ سے دریافت کیا اور مولانا رجب علی نانپاروی بھی موجود تھے۔ میرے یہاں جلسہ میں آئے ہوئے تھے، لیکن وہ بھی اس مسئلہ کو نہ سمجھا سکے یہ کہا کہ رطوبت رحم تو ناپاک ہے ۔ میرے یہاں مدرسہ میں جناب مولانا شمس اللہ صاحب بستوی پڑھاتے ہیں جو اس وقت چھٹی پر پیلی بھیت تشریف فرماہیں، ان کو بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ حضور والا سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کو تفصیل سے تحریر فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی اور اس مسئلہ کو فتاوی رضویہ کا مسئلہ بتاتے ہیں۔ فتاوی رضویہ میں نے دیکھا بھی نہیں، لیکن بہار شریعت حصہ دوم ، ص:۵۰، پر مجھے یہ مسئلہ ملا ہے ، مسئلہ حسب ذیل ہے: مسئلہ: مرغی کا تازہ انڈا جس پر ہنوز رطوبت لگی ہو پانی میں پڑ جائے تو نجس نہ ہوگا، یوں ہی بکری کا بچہ پیدا ہوتے ہی پانی میں گرا اور مرا نہیں جب بھی ناپاک نہ ہوگا۔

فتاویٰ #1377

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: بہار شریعت کا مسئلہ بالکل صحیح اور حق ہے، غنیہ میں ہے: السخلۃ إذا وقعت أمہا رطبۃ في الماء لا تفسدہ کذا في کتب الفتاوی وہذا لأن الرطوبۃ التي علیہا لیس بنجس لکونہا في محلہا۔ رد المحتار میں ہے: ولذا نقل في التاتارخانیۃ: أن رطوبۃ الولد عند الولادۃ طاہرۃ، وکذا السخلۃ إذا خرجت من أمہا، وکذا البیضۃ۔ فلا یتنجس بہا الثوب ولا الماء إذا وقعت فیہ۔ اشکال اس وجہ سے پیدا ہو گیا کہ آپ نے یہ خیال کر لیا کہ رحم کی رطوبت ناپاک ہے حالاں کہ یہی غلط ہے۔ (یہ رطوبت در اصل شرم گاہ کی تری ہے جو ایک طرح کا سفید پانی ہے اور) یہ پاک ہے اور بچے کے ساتھ یہی رطوبت لگی رہتی ہے۔ در مختار میں ہے: رطوبۃ الفرج طاہرۃ، خلافا لہما۔ رد المحتار میں قول امام کو مختار ومعتمد فرمایا اور یہی مفتی بہ ہے۔ خود اعلی حضرت قدس سرہ نے فتاوی رضویہ شریف کے فوائد میں غنیہ کے مذکورہ بالا جزئیہ پر تفریع فرمائی ہے، ارشاد ہے کہ : ’’رحم کی رطوبت پاک ہے ۔‘‘ حاشیہ ص:۵۶۳ ، جلد اول، اور اسی صفحہ پر بہار شریعت کا مذکورہ بالا مسئلہ بھی درج ہے۔ بہر حال اشکال اس پر قائم تھا کہ رطوبت ناپاک ہے اب جب کہ ہم بتا آئے مذہب امام یہ ہے کہ رحم کی رطوبت پاک ہے اور یہ بھی بتا آئے کہ یہی مفتی بہ و معتمد ومختار ہے تو اشکال ختم ہو گیا۔ دیوبندیوں کی چیخ وپکار بند کرنے کے لیے غنیہ ، در مختار، رد المحتار کی عبارات کافی ہیں، اگر وہ اب بھی بڑ بڑائیں تو غنیہ کی عبارت لکھ کر دیوبند سے پوچھ لیں کہ یہ عبارت صحیح ہے یا نہیں اور مسئلہ کی نوعیت کیا ہے۔ ان شاء اللہ المولی وہاں سے بھی یہی جواب آئے گاجو بہار شریعت میں ہے، علماے اہل سنت کا زخم کھاتے کھاتے اب دیوبندیوں میں اتنی جرأت باقی نہیں کہ اہل سنت کا اشکال جدید اپنے سر مول لیں ، ان کے رؤس جہال سے جو غلطیاں ہو چکی ہیں وہی ان کی رسوائی کے لیے بہت ہیں۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved