بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: بہار شریعت کا مسئلہ بالکل صحیح اور حق ہے، غنیہ میں ہے: السخلۃ إذا وقعت أمہا رطبۃ في الماء لا تفسدہ کذا في کتب الفتاوی وہذا لأن الرطوبۃ التي علیہا لیس بنجس لکونہا في محلہا۔ رد المحتار میں ہے: ولذا نقل في التاتارخانیۃ: أن رطوبۃ الولد عند الولادۃ طاہرۃ، وکذا السخلۃ إذا خرجت من أمہا، وکذا البیضۃ۔ فلا یتنجس بہا الثوب ولا الماء إذا وقعت فیہ۔ اشکال اس وجہ سے پیدا ہو گیا کہ آپ نے یہ خیال کر لیا کہ رحم کی رطوبت ناپاک ہے حالاں کہ یہی غلط ہے۔ (یہ رطوبت در اصل شرم گاہ کی تری ہے جو ایک طرح کا سفید پانی ہے اور) یہ پاک ہے اور بچے کے ساتھ یہی رطوبت لگی رہتی ہے۔ در مختار میں ہے: رطوبۃ الفرج طاہرۃ، خلافا لہما۔ رد المحتار میں قول امام کو مختار ومعتمد فرمایا اور یہی مفتی بہ ہے۔ خود اعلی حضرت قدس سرہ نے فتاوی رضویہ شریف کے فوائد میں غنیہ کے مذکورہ بالا جزئیہ پر تفریع فرمائی ہے، ارشاد ہے کہ : ’’رحم کی رطوبت پاک ہے ۔‘‘ حاشیہ ص:۵۶۳ ، جلد اول، اور اسی صفحہ پر بہار شریعت کا مذکورہ بالا مسئلہ بھی درج ہے۔ بہر حال اشکال اس پر قائم تھا کہ رطوبت ناپاک ہے اب جب کہ ہم بتا آئے مذہب امام یہ ہے کہ رحم کی رطوبت پاک ہے اور یہ بھی بتا آئے کہ یہی مفتی بہ و معتمد ومختار ہے تو اشکال ختم ہو گیا۔ دیوبندیوں کی چیخ وپکار بند کرنے کے لیے غنیہ ، در مختار، رد المحتار کی عبارات کافی ہیں، اگر وہ اب بھی بڑ بڑائیں تو غنیہ کی عبارت لکھ کر دیوبند سے پوچھ لیں کہ یہ عبارت صحیح ہے یا نہیں اور مسئلہ کی نوعیت کیا ہے۔ ان شاء اللہ المولی وہاں سے بھی یہی جواب آئے گاجو بہار شریعت میں ہے، علماے اہل سنت کا زخم کھاتے کھاتے اب دیوبندیوں میں اتنی جرأت باقی نہیں کہ اہل سنت کا اشکال جدید اپنے سر مول لیں ، ان کے رؤس جہال سے جو غلطیاں ہو چکی ہیں وہی ان کی رسوائی کے لیے بہت ہیں۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org