8 September, 2024


دارالاِفتاء


اعلی حضرت مجدد دین وملت امام اہل سنت رضی اللہ تعالی عنہ کے فتاوی رضویہ سے چند حوالے ایک کتاب آئینہ بریلویت نام کی ہے جسے مولوی مستقیم قاسمی سلطان پوری نے لکھا ہے اس میں دیے گئے ہیں جس کو پڑھ کر کافی حیرانی وذہنی پریشانی ہوئی۔ اس لیے کہ ہماری سمجھ اتنی نہیں ہے کہ اعلی حضرت کے پیش کردہ ہر مسئلہ کو سمجھ لیں لہذا دو تین مسئلے اس کتاب کے مع حوالہ مندرجہ ذیل ہیں امید کہ آسان لفظوں کے ساتھ جواب دے کر مطمئن کریں گے۔ (۱) فتاوی رضویہ جلد اول ص:۴۵۶ کے حوالے سے مصنف کتاب ہذا نے لکھا ہے کہ اعلی حضرت نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ حائض ونفسا نے خون بند ہونے سے پہلے بغیر نیت کے غسل کیا یہ پانی بھی قابل وضو ہے یعنی حیض ونفاس والی عورت نے خون بند ہونے سے پہلے بغیر نیت کے غسل کیا اس کے دھوون سے وضو جائز ہے اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ حیض ونفاس والی کے غسل کے اس پانی سے وضو کیسے جائز ہے؟ (۲) کتاب ہذا کے مصنف نے فتاوی رضویہ جلد اول ص: ۵۶۳ کے حوالے سے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ گائے ، بکری کسی پاک جانور کا بچہ پیدا ہوتے ہی اس تری کی حالت جو وقت پیدائش اس کے بدن پر ہوتی ہے کنویں یا لگن میں گرجائے اور زندہ نکل آئے پانی پاک رہے گا ۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ بچے کے بدن پر وقت پیدائش جو تری لگی رہتی ہے کیا وہ پاک ہے نجس نہیں؟ اس سے پانی ناپاک نہ ہوگا؟ (۳) کتاب ہذا میں فتاوی رضویہ جلد اول ۵۷۶ کے حوالے سے یہ مسئلہ مذکور ہے ۔ بکری کا بچہ اسی وقت پیدا ہو کہ ابھی اس کا بدن رطوبت رحم سے گیلا ہے گود میں اٹھا کر نماز پڑھی کچھ حرج نہیں اور اگر پانی میں گرا پانی ناپاک نہ ہوگا کہ شرم گاہ کی رطوبت پاک ہے۔ اب سمجھنا یہ ہے کہ شرم گاہ کی رطوبت کیسے پاک ہے؟

فتاویٰ #1350

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: دیوبندیوں نے اپنے اکابر کے کفریات سے عوام کے ذہن کو ہٹانے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا ہے کہ ایسے مسائل جن کی تہہ تک عوام کا ذہن نہ پہنچ سکے اعلی حضرت قدس سرہ کی کتابوں سے چھانٹ چھانٹ کر عوام میں پھیلائے جائیں جس سے عوام حیرت میں پڑیں اور کچے دماغ کے لوگ متنفر ہو جائیں، اگر چہ وہ مسائل حق اور صحیح ہوں اور خود دیوبندیوں کا بھی وہی مذہب ہو۔ یہی ان مسائل کے سلسلے میں بھی جذبہ کار فرما ہے۔ آپ فتاوی رضویہ کا حوالہ دیے بغیر ان مسائل کو لکھ کر دیو بند سے پوچھ لیں وہی جواب ملے گا جو اعلی حضرت قدس سرہ نے لکھا ہے۔ (۱) یہ مسئلہ اعلی حضرت نے از خود نہیں لکھا ہے بلکہ تمام فقہاے احناف نے لکھا ہے سر دست آپ چند کتابوں کے حوالے سن لیں۔ غنیہ میں علامہ حلبی نے ، البحر الرائق میں علامہ ابن نجیم نے ، رد المحتار میں علامہ شامی نے، عالمگیری، قاضی خاں، خلاصہ وغیرہ سب میں ہے۔ سر دست شامی کی عبارت نقل کر دیتا ہوں : قَوْلُهُ فِي مُحْدِثٍ أَيْ حَدَثًا أَصْغَرَ أَوْ أَكْبَرَ جَنَابَةً أَوْ حَيْضًا أَوْ نِفَاسًا بَعْدَ انْقِطَاعِهِمَا، أَمَّا قَبْلَ الِانْقِطَاعِ وَلَيْسَ عَلَى أَعْضَائِهِمَا نَجَاسَةٌ فَهُمَا كَالطَّاهِرِ إذَا انْغَمَسَ لِلتَّبَرُّدِ لِعَدَمِ خُرُوجِهَا مِنْ الْحَيْضِ، فَلَا يَصِيرُ الْمَاءُ مُسْتَعْمَلًا بَحْرٌ عَنْ الْخَانِيَّةِ وَالْخُلَاصَةِ، وَتَمَامُهُ فِي ح أي الحموي. یعنی اگر کوئی مُحْدِث کنویں میں گیا خواہ اسے حدث اصغر ہو یا اکبر، جنابت ہو یا حیض ونفاس خون بند ہونے کے بعد۔ تو کنویں کے بارے میں اختلاف ہے کہ کنواں پاک رہا کہ ناپاک ہو گیا، پانی مستعمل ہو گیا کہ طاہر ومطہر رہا۔ لیکن اگر حائضہ اور نفاس والی خون بند ہونے سے پہلے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے کنویں میں غوطہ لگائے اور ان کے اعضا پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو تو وہ پانی مستعمل نہ ہوگا۔ جواب اتنے ہی سے ہو گیا کہ اعلی حضرت قدس سرہ نے جو کچھ لکھا ہے اپنے گھر سے نہیں لکھا ہے بلکہ علماے احناف کا متفقہ فیصلہ لکھا ہے مگر آپ کو الجھن ہوگی اس لیے باوجود عدیم الفرصتی کے بقدر ضرورت اس کی توضیح کر دیتا ہوں ۔ وباللہ التوفیق۔ اس مسئلےکی بنیاد دو اور دوسرے مسائل پر قائم ہے ۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ پانی مستعمل کب ہوتا ہے اس کی تحقیق یہ ہے کہ: انسان کے بدن سے جو پانی حدث دور کرنے یا قربت یعنی عبادت کی نیت سے استعمال کیا جائے وہ پانی مستعمل ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ حائضہ اور نفسا کے ظاہر بدن پر کوئی نجاست نہیں۔ حدیث میں ہے : إن حیضتک لیست في یدک‘‘۔ تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں۔ حیض ونفاس والی کی نجاست حقیقی نہیں حکمی ہے قیاس تو یہ چاہتا ہے کہ جہاں سے خون نکلا ہے صرف اس جگہ کو دھودیں اور عورت پاک ہو جائے مگر شریعت نے غسل یعنی پورے بدن کے دھونے کا حکم دیا ہے اسے نجاست حکمی کہتے ہیں، حیض ونفاس والی لاکھ نہائے پاک نہ ہوگی جب تک خون آتا رہتا ہے، اس لیے علما نے فرمایا حیض ونفاس والی پر غسل خون بند ہونے پر واجب ہے یہ مسئلہ بھی فقہ کی تمام کتابوں میں مصرح ہے تنویر الابصار اور در مختار میں موجبات غسل کے بیان میں ہے: وعند انقطاع حیض ونفاس۔حیض ونفاس والی پر غسل حیض ونفاس ختم ہونے پر واجب ہے۔ اس کے پہلے واجب نہیں۔ اس کا صاف وصریح مطلب یہ ہوا کہ اگر خون بند ہونے سے پہلے خون آنے کی حالت میں نہائے گی تو اس سے حدث دور نہ ہوگا، اب اصل مسئلہ کو لیجیے حیض ونفاس والی عورت نے خون جاری رہنے کی حالت میں غسل کیا اور اس غسل سے اس کی نیت یہ نہیں کہ وہ کوئی فرض یا سنت ادا کر رہی ہے بلکہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ گرمی بہت ہے نہانے سے ٹھنڈک حاصل ہو جائے گی اس لیے اس نے غسل کیا تو اس کے جسم سے حدث دور ہوا نہیں اور اس نے کسی قربت یا عبادت کی نیت سے پانی استعمال کیا نہیں تو یہ پانی مستعمل ہوا نہیں اور جب مستعمل نہیں ہوا تو یہ پانی وضو کے لائق رہا، (یہ حکم اس وقت ہے جب کہ پانی میں حیض کا خون نہ لگے) اس کے ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں۔ ان سب نکات کو ہو سکتا ہے یہ قاسمی جاہل نہ جانتا ہو مگر دیو بندی مفتی ضرور جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ حق ہے مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ عوام ان دقائق کو کیا جانیں اور کیا سمجھیں اور نہ انھیں یہ معلوم ہے کہ یہ فقہ حنفی کا مسلمہ مسئلہ ہے، اسے اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا ایجاد کردہ جانیں گے اور سمجھ نہ پائیں گے اور اعلی حضرت سے متنفر ہو جائیں گے(یہ اور اس طرح کے مسائل کی تحقیق راقم الحروف کی کتاب ’’امام احمد رضا پر اعتراضات ایک تحقیقی جائزہ‘‘ مطبوعہ مکتبہ برہان ملت، مبارک پور میں ہے۔ ۱۲ محمد نظام الدین الرضوی) ، شیطانوں کا اتنے ہی سے کام نکل جائے گا۔ واللہ تعالی اعلم (۲، ۳) یہ دونوں مسئلے بھی اعلی حضرت قدس سرہ نے اپنے جی سے نہیں لکھے ہیں، یہ بھی کتب فقہ میں بصراحت مذکور ہے۔ در مختار میں ہے ’’رطوبۃ الفرج طاہرۃ‘‘۔ اس کے تحت شامی میں ہے: ’’وَلِذَا نُقِلَ فِي التَّتَارْخَانِيَّة أَنَّ رُطُوبَةَ الْوَلَدِ عِنْدَ الْوِلَادَةِ طَاهِرَةٌ ، وَكَذَا السَّخْلَةُ إذَا خَرَجَتْ مِنْ أُمِّهَا ، وَكَذَا الْبَيْضَةُ فَلَا يَتَنَجَّسُ بِهَا الثَّوْبُ وَلَا الْمَاءُ إذَا وَقَعَتْ فِيهِ‘‘. یعنی شرم گاہ کی رطوبت پاک ہے اسی وجہ سے فتاوی تاتارخانیہ میں نقل کیا کہ پیدائش کے وقت بچے کے جسم پر جو رطوبت ہوتی ہے پاک ہے اسی طرح بکری کا بچہ جب پیدا ہوا اور ایسے ہی انڈا اس سے کپڑا ناپاک نہ ہوگا اور اگر پانی میں گرجائے تو پانی ناپاک نہ ہوگا۔ اس جاہل قاسمی سے پوچھیے کہ وہ ان علماے احناف کو کیا کہتا ہے جنھوں نے وہی لکھا جو اعلی حضرت قدس سرہ نے لکھا، یا تو وہ حنفیت سے توبہ کرے اور اعلان کردے کہ میں غیر مقلد ہوں تو پھر اس سے دوسری طرح گفتگو ہو گی اس مسئلہ کی بنیاد دو جزوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ :انسان کے بدن کا خون جو بہنے والا ہو۔ پتہ، اور پیشاب پاخانہ اور جو چیزیں ان سے ملی ہیں جیسے پیٹ کا پانی اور غذا کہ یہ پائخانہ سے متصل رہتا ہے معدے اور آنتوں میں کوئی حائل نہیں ناپاک ہیں، ان کے علاوہ گوشت پوست ہڈی مغز اور رطوبتیں پاک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تھوک رال کھنکھار میل ناپاک نہیں۔ انھیں کی طرح رحم کی رطوبت بھی ہے جیسا کہ علامہ شامی نے تاتارخانیہ سے نقل فرمایا۔ دوسرے یہ کہ : نجاست اپنے معدن میں نجس نہیں ورنہ لازم کہ انسان کبھی پاک نہ ہو اس لیے کہ اس کے جسم میں ہمیشہ نجاست بھری رہتی ہے مثلا خون، پتہ، پیشاب، پائخانہ۔ بکری کے بچے پر یا انڈے پر جو رطوبت ہے وہ اپنے معدن میں ہے اس لیے وہ پاک ہے، علامہ ابن نجیم نے اسی پر اس مسئلے کی بنیاد رکھی اس کا ماحصل یہ ہے کہ بچے دانی رحم کی رطوبت پاک ہے یا ناپاک اس میں اختلاف ہے حضرت امام اعظم صاحب مذہب کے نزدیک پاک ہے، اور صاحبین حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالی کے نزدیک ناپاک ۔ حضرت امام اعظم کے قول پر دونوں مسئلے بے غبار ہیں، البتہ صاحبین کے قول پر اس کی بنیاد دوسرے کلیہ پر ہے کہ نجاست اپنے معدن میں پاک ہے۔ اس جاہل نے اگر فتاوی رضویہ دیکھا ہوتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ ان مسائل کی نوعیت کیا ہے اعلی حضرت نے حوالے بھی دیے ہیں ص:۵۶۳ پر غنیہ۔ شرح منیہ کا حوالہ ہے اس کی عبارت بھی نقل فرمائی: السخلۃ إذا وقعت من أمہا رطبۃ في الماء لا تفسد کذا في کتب الفتاوی، وہذا لأن الرطوبۃ التی علیہا لیست بنجسۃ لکونہا في محلہا۔ بکری کا بچہ گیلا پیدا ہوتے ہی پانی میں گر جائے تو پانی ناپاک نہ ہوگا جیسا کہ کتب فتاوی میں ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جو تری بچے کے اوپر ہے ناپاک نہیں اس لیے کہ وہ اپنے محل میں ہے۔ ص:۵۷۶ پر مفصل فرمایا: اس کی تائید بدائع امام ملک العلما میں دیکھی بکری کا بچہ اسی وقت پیدا ہوا جب تک اس کا بدن رطوبت رحم سے گیلا ہے ناپاک ہے خشک ہوکر پاک ہو جائے گا۔ یعنی صاحبین کے نزدیک جن کے نزدیک رطوبت رحم نجس ہے ورنہ امام کے نزدیک بحال تری بھی پاک ہے۔ وہذا الفقہ۔ اور اس کے بعد بدائع کی عربی عبارت ہے اور اس مفتری نے یہ افترا کیا ہے کہ اس پانی سے وضو جائز ہے۔ یہ ان دونوں صفحوں میں سے کسی میں نہیں۔ یہ اس نے اپنی طرف سے جڑ دیا ہے۔ پانی کے پاک ہونے سے یہ لازم نہیں کہ اس سے وضو بھی جائز ہو ۔ ماے مستعمل پاک ہے مگر اس سے وضو جائز نہیں مگر دھوکا اور فریب دینے والے کیا نہیں کرتے ہیں ایسے پانی سے وضو کرنا ممنوع ہے جیسا کہ شامی میں ہے ۔(حاشیہ: یہ اور اس طرح کے مسائل کی تحقیق راقم الحروف کی کتاب ’’امام احمد رضا پر اعتراضات ایک تحقیقی جائزہ‘‘ مطبوعہ مکتبہ برہان ملت، مبارک پور میں ہے۔ ۱۲ محمد نظام الدین الرضوی) واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved