8 September, 2024


دارالاِفتاء


امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت کیوں کہا گیا جب کہ چند لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت سے بھی کام لیا جا سکتا تھا امید کہ تشفی بخش جواب سے نوازیں گے۔

فتاویٰ #1267

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب: اعلیٰ حضرت کا معنی ہے " بڑے حضرت" عام طور پر علما و حفاظ و قراء و مشایخ کو حضرت کے لقب سے پکارتے ہیں، یہ حضرات معظم ہوتے ہیں اور ان کی عظمت کے اظہار کے لیے یہ لفظ عرفاً مناسب ہے۔ اور اگر کسی عالم دین کو اللہ عزوجل نے اس کے عصر میں سب سے افضل و ممتاز کیا ہو، مجدد اسلام کے شرف سے نوازا ہو، وہ علماے صغار و کبار کا مرجع ہو تو حضرت کے لفظ سے علماے زمانہ میں اس کی افضلیت کا اظہار نہیں ہو سکتا، اس لیے علما و مشایخ نے مجدد اسلام، امام احمد رضا رحمہ اللہ تعالی کے لیے اعلی حضرت کا لقب پسند کیا۔ وہ یقینا اپنے علم و فضل کے لحاظ سے کئی صدیوں کے علما میں بڑے حضرت اور اعلی حضرت تھے اور آج بھی ہیں۔ اگر عام طور پر علما و مشایخ کو حضرت کہنے میں کوئی حرج نہیں تو جو ان سب میں افضل و ممتاز ہو اسے اعلی حضرت کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھنا چاہیے۔ جیسے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دوسرے ائمہ مذاہب پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے تو انھیں امام اعظم کہا جاتا ہے، اولیا میں حضور غوث پاک کا مرتبہ سب سے اونچا ہے تو انھیں غوث اعظم کہا جاتا ہے اور کچھ اسی طرح کے فصائل و امتیازات کی بنا پر پہلے کے کچھ فقہا و محدثین کو شیخ الاسلام، صدرالشریعہ، تاج الشریعہ، امام المحدثین وغیرہ القاب سے یاد کیا جاتا ہے حالانکہ انھیں امام، غوث اور شیخ و فقیہ و محدث کہنا بھی بجا تھا مگر ان کے علم و فضل کا اظہار انھی القاب سے ہوتا ہے اس لیے صدیوں پہلے کے علما و فقہا و محدثین نے اس طرح کے تعظیمی القاب ان کے لیے اختیار فرمائے ایسے ہی لفظ حضرت اور اعلی حضرت کو بھی عرف زمانہ کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ مسلم کامل کے لیے اعلیٰ کا لفظ بولنا قرآن حکیم کی آیت کریمہ واَنتُمُ الاَعْلَونَ سے ثابت ہے کہ اَلاَعْلَونَ جمع ہے اعلی کی، تو ایک عالم کامل کے لیے حضرت کے ساتھ اعلیٰ کا لفظ لگا کر اعلیٰ حضرت بولنا بھی بجا ہوگا۔ اس طرح کے القاب پہلے اور بعد کے تمام زمانوں کو سامنے رکھ کر نہیں چنے جاتے بلکہ اپنے زمانے کو سامنے رکھ کر چنے جاتے ہیں اس لیے یہ حقیقت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنی چاہیے۔ در اصل اعلیٰ حضرت کا لفظ تعظیم و عزت کا لقب ہے جو بڑے علما و مشایخ اور بادشاہوں کے لیے بولا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ مجدد اسلام کے لیے پہلی مرتبہ اس کی ایجاد ہوئی۔ یہاں تک کہ جو لوگ عقاید میں امام احمد رضا رحمہ اللہ تعالٰی سے عناد رکھتے ہیں اور انھیں اعلی حضرت کہنے پر غیر مناسب بنیادوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ بھی اپنے بزرگوں اور علما کے لیے یہ لفظ بولتے رہے ہیں جیسا کہ تذکرہ رشید احمد وغیرہ میں اس کے شواہد موجود ہیں۔ املاہ: محمد نظام الدین رضوی شیخ الحدیث و صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارکپور

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved