22 November, 2024


دارالاِفتاء


زید نے بیان کیا کہ میں نے رات میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خالد نے ہندہ کے ساتھ زنا کیا اور اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے ۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ خالد نے ہندہ کے ساتھ ایسا کیا اور میں حلف لینے کو تیار ہوں۔ ہندہ اور خالد اس کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا ۔ خالد اور ہندہ حلف لینے کو تیار ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم قرآن ہاتھ میں لے کر کہنے کو تیار ہیں کہ ہم دونوں نے ایسا نہیں کیا، یہ ہم پر افترا ہے۔نیز عمرو کا بیان ہے کہ جس رات خالد اور ہندہ کے درمیان یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے ، اس رات میں پوری رات خالد میرے ساتھ رہا ۔ ہاں پوری رات میں بیس منٹ یا اس سے کچھ زیادہ ہم خالد سے جدا رہے ۔ اس بیس منٹ یا کچھ زیادہ کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کہاں گیا اور اس نے کیا کیا؟ جتنی مدت کہ وہ مجھ سے پوری رات میں جدا رہا یعنی ۲۰؍ منٹ یا کچھ زیادہ اس کے علاوہ ساری رات وہ میرے ساتھ رہا اور جب تک وہ میرے ساتھ رہا اتنی دیرخالد نے ہندہ کے ساتھ ایسا فعل نہیں کیا یعنی زنا نہیں کیا اور اس کو میں حلفیہ بیان کر سکتا ہوں۔ یہ بھی واضح رہے کہ زید و خالد و عمرو یہ تینوں داڑھی منڈے ہیں ۔ اب عرض یہ ہے کہ زید کے حلفیہ بیا ن سے خالد اور ہندہ پر زنا کا حکم ثابت ہوگا یا نہیں؟ اگر ثابت ہوگا تو کیوں؟خالد اور ہندہ اپنی صفائی میں حلف لینے کو تیار ہیں۔ اورخالد اور ہندہ کی طرف سے عمر و بھی ان کی صفائی میں حلفیہ بیان دینے کو تیار ہے ۔ اگر حلف ہی زنا کے جرم کی مثبت ہو تو یہی حلف زنا کے جرم کی نافی کیوں نہ ہوگی۔ بہر کیف جب کہ خالد اور ہندہ کے درمیان زنا کا جرم شرعاً ثابت ہو جائے تو ہندہ کا شوہر بکر، ہندہ سے توبہ لینے کے بعد ہندہ کو اپنے پاس رکھے یا طلاق دے دے۔ اگر رکھے تو زانیہ عورت کو کیسے رکھ سکتا ہے جب کہ اس کے زنا کا اعلان ہو چکا ہے اور بہت سے لوگ جانتے ہیں۔ اور اگر بکر ہندہ کو اپنے پاس رکھنا چاہے تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟ کیا ہندہ سے صرف اس جرم کی توبہ لی جائے یا اس کے ساتھ ہندہ کو کوئی اور بھی سزا دی جائے؟اجراے حدِشرعی کا زمانہ تو نہیں ہے۔ کیا بکر ہندہ کی طرف سے اس جرم کی تلافی میں توبہ کے علاوہ کسی قِسم کا کفارہ دے یا برادری کو کھانا کھلائے، ایسا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ نیز یہ بھی بیان فرمایا جائے کہ جب کہ بکر ہندہ سے توبہ لینے کے بعد ہندہ کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے تو ہندہ سے کتنے لوگوں کے روبرو توبہ کرائی جائے۔ نیز ہندہ سے توبۂ شرعی لینے کے بعد ہندہ اور بکر کے مکان پر کھانا وغیرہ کھا پی سکتے ہیں یا نہیں اور میل ملاپ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر ہندہ اس جرمِ زنا سے سچی توبہ کرے تو اس وقت بھی بکر ہندہ کو طلاق دے دے، تو کیا ایک مرتبہ زنا کا جرم انسان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اس کو اپنے سے علاحدہ کر دیا جائے اور طلاق دے دی جائے؟ باوجودے کہ مجرم نے اس جرم سے سچی توبہ کر لی ہے، علاوہ بریں بکر ہندہ سے سچی توبہ لینے کے بعد اس کو طلاق دینے کا مستحق کب ہو سکتا ہے جب کہ پروردگار عالم نے تمام روے زمین پرطلاق سے زیادہ ناپسندیدہ چیز نہیں پیدا کی اور طلاق بلا وجہ شرعی اللہ اور اس کے رسول کو ناپسند ہے اور جو جرم کہ طلاق دینے کا باعث ہوتا ہے مجرم اس جرم سے ہمیشہ کے لیے سچی توبہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اب میں کبھی ایسا کام نہیں کروں گا۔ جوحکم شرعی اس مسئلے میں ہو دلیل کے ساتھ بہ حوالۂ کتب ِمعتبرہ بیان فرمایا جائے، بہت سخت ضرورت ہے۔بینوا بالکتاب توجروا یوم الحساب۔

فتاویٰ #1247

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب: زنا قطعی حرام ہے، غضبِ الٰہی کا باعث ہے ۔ اگر بالفرض ہندہ و خالد نے ایسا کیا تو ان پر توبہ لازم ہے۔ ایک تو زنا کا وجود واقعہ میں ہے کہ زانی و زانیہ نے زنا کیا ، خواہ کسی انسان کو اطلاع ہو یا نہ ہو، مگر وہ عند اللہ ثابت ہے اور سزاے آخرت کا موجب ہے ، اس کا علاج صرف توبہ ہے۔ دوسرے زنا کا ثبوت عند الناس ہے یعنی لوگوں کے نزدیک زنا ثابت ہو ۔ یہ ثبوت جب ہوتا ہے کہ زانی یا زانیہ چار مرتبہ اقرار کریں یا کم از کم چار شخص جن کی شہادت شرعاً معتبر ہے وہ عینی شہادت دیں ۔ جب زنا ثابت ہوگا تب اس پرحد زنا قائم کی جائے گی۔ صورت مسئلہ میں جب کہ خالد اور ہندہ اپنے زنا کے منکر ہیں اور زید تنہا شہادت دیتا ہے ۔ زید کی تنہا شہادت ہر گز زنا کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ۔ ایک شخص تو کیا دو تین شخصوں کی شہادت بھی ناکافی ہے ۔ زنا کے ثبوت کے لیے چار معتبر اشخاص کی عینی شہادت درکار ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے: لَوْلَا جَآءُوْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَةِ شُھَدَآئَﺆ فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّھَدَآئِ فَاُوۡلٰٓئِکَ عِنْدَ اللہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ. (ترجمہ) اس پرچار گواہ کیوں نہ لائے(کہ ثبوت ہوتا)توجب کہ وہ چار گواہ نہ لا سکے تو وہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں ۔ لہٰذا زید کا حلف لینا اور شہادت دینا قطعاًبے کار ہے ، اس سے زنا کا ثبوت ہر گز نہ ہوگا بلکہ زید خود حد قذف کا مجرم ہے۔ اس صورت میں بکر ہندہ کو طلاق نہ دے ، اس لیے کہ زنا ثابت نہیں اور ثبوت زنا کے بعد بھی اگر طلاق نہ دے، ہو سکتا ہے۔ زنا کے ثبوت کے بعد طلاق دینا ضروری نہیں ۔ زوجہ پھر بھی زوجہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved