بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب: زنا قطعی حرام ہے، غضبِ الٰہی کا باعث ہے ۔ اگر بالفرض ہندہ و خالد نے ایسا کیا تو ان پر توبہ لازم ہے۔ ایک تو زنا کا وجود واقعہ میں ہے کہ زانی و زانیہ نے زنا کیا ، خواہ کسی انسان کو اطلاع ہو یا نہ ہو، مگر وہ عند اللہ ثابت ہے اور سزاے آخرت کا موجب ہے ، اس کا علاج صرف توبہ ہے۔ دوسرے زنا کا ثبوت عند الناس ہے یعنی لوگوں کے نزدیک زنا ثابت ہو ۔ یہ ثبوت جب ہوتا ہے کہ زانی یا زانیہ چار مرتبہ اقرار کریں یا کم از کم چار شخص جن کی شہادت شرعاً معتبر ہے وہ عینی شہادت دیں ۔ جب زنا ثابت ہوگا تب اس پرحد زنا قائم کی جائے گی۔ صورت مسئلہ میں جب کہ خالد اور ہندہ اپنے زنا کے منکر ہیں اور زید تنہا شہادت دیتا ہے ۔ زید کی تنہا شہادت ہر گز زنا کے ثبوت کے لیے کافی نہیں ۔ ایک شخص تو کیا دو تین شخصوں کی شہادت بھی ناکافی ہے ۔ زنا کے ثبوت کے لیے چار معتبر اشخاص کی عینی شہادت درکار ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے: لَوْلَا جَآءُوْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَةِ شُھَدَآئَﺆ فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّھَدَآئِ فَاُوۡلٰٓئِکَ عِنْدَ اللہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ. (ترجمہ) اس پرچار گواہ کیوں نہ لائے(کہ ثبوت ہوتا)توجب کہ وہ چار گواہ نہ لا سکے تو وہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں ۔ لہٰذا زید کا حلف لینا اور شہادت دینا قطعاًبے کار ہے ، اس سے زنا کا ثبوت ہر گز نہ ہوگا بلکہ زید خود حد قذف کا مجرم ہے۔ اس صورت میں بکر ہندہ کو طلاق نہ دے ، اس لیے کہ زنا ثابت نہیں اور ثبوت زنا کے بعد بھی اگر طلاق نہ دے، ہو سکتا ہے۔ زنا کے ثبوت کے بعد طلاق دینا ضروری نہیں ۔ زوجہ پھر بھی زوجہ ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org