8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید نے بعد نمازِ جمعہ کثیر مجمع میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ بے ایمان ہے، زید سے ایک عالمِ دین نے چند سولات کیے ، کیا جو لوگ اب تک نماز نہیں پڑھتے تھے وہ بے ایمان تھے ؟ کیا ہمارے وہ آبا و اجداد جو کہ نماز نہیں پڑھتے تھے بے ایمان مرے؟ان سوالات پر زید یہ کہتا ہے کہ آپ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں ؟جواب دیا گیا کہ ہاں وہ خدا ورسول کے حکم سے مسلمان ہیں ۔ زید نے کہا کہ آپ مسلمان سمجھتے ہیں تو سمجھا کریں ۔ اس کے بعد مجمع میں انتشار پیدا ہو گیا، جھگڑے کی نوبت آگئی۔ اس دوران امام مسجد اور دیگر چند اشخاص نے کہا کہ زید نے جو کچھ کہا ہے وہ کتاب میں لکھا ہے ہم ثابت کر دیں گے۔ لہذا زید اور اس کی تائید کرنے والے تمام اشخاص کے لیے فیصلہ شرعی مع حو ا لۂ کتب معتبرہ ارشاد فرمائیں اور پیش امام مذکور کے پیچھے نماز پڑھنا چاہیے یا نہیں ؟ اگر پیش امام مذکور کے پیچھے نماز ادا کی گئی تو کیا جرم ہے؟ قرآن و حدیث کے حوالے سے ارشاد فرمائیں بینواتوجروا۔

فتاویٰ #1224

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب : ارکانِ اسلام میں نماز رکنِ اعظم ہے ۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں نماز کی بڑی سخت تاکید ہے ۔ نماز کے ترک پر بڑی بڑی شدید وعیدیں آئی ہیں ۔ بعض جگہ تارک نماز پر کفر کا اطلاق بھی کیا گیا ہے ، مثلاً: من ترک الصلوۃ فقد کفر. جس نے نماز ترک کی وہ کافر ہوا۔ (مرتب مصباحی) یہ اطلاق زجرًا اور تشدیدًاکیا گیاہے ، یایہ مطلب ہے کہ جس نے نماز کو فرض نہ جان کر ترک کیا وہ کافر ہے ۔ اسی طرح بعض دوسرے گناہوں کے لیے بھی تشدید آئی ہے مثلاً حدیث میں ارشاد فرمایا: لا یزنی الزّانی حین یزنی و ھو مومن ولا یسرق السارق حین یسرق و ھو مومن. ’’زانی جس وقت زنا کرتا ہے مومن نہیں رہتا اور چور جس وقت چوری کرتا ہے مومن نہیں رہتا ۔“ ان حدیثوں میں زانی اور چور سے ایمان کی نفی تشدید اًکی گئی ہے ۔ یا کمالِ ایمان کی نفی ہے ، یا یہ مطلب ہے کہ زنا اور چوری کو حلال جان کر کیا تو مومن نہیں ، شراح حدیث ان احادیث کا یہی مطلب بیان فرماتے ہیں ، اس لیے کہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے۔ شرح عقائد میں ہے : فاعلم ان الایمان فی الشرع ھو التصدیق بما جاء بہ من عند اللہ تعالیٰ. یعنی بے شک شریعت میں ایمان تصدیق ہے ہر اس چیز کی جو نبی اللہ کی جانب سے لے کر آئے۔ لہٰذا جو مسلمان نماز کو فرض جانتا ہے اور محض غفلت و سستی سے ترک کرتا ہے وہ مومن ہے ، کافر نہیں ۔ زنا ، چوری، ترک نماز گناہِ کبیرہ ہیں اور اہلِ سنت و جماعت کا اجماع و اتفاق ہے کہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ایمان اور اسلام سے خارج نہیں ۔ عقائد نسفی میں ہے: الکبیرۃ لا تخرج العبدالمومن من الایمان. یعنی گناہِ کبیرہ بندۂ مومن کو ایمان سے خارج نہیں کرتا۔ البتہ معتزلہ اور خارجیوں کا اس میں اختلاف ہے۔ معتزلہ مرتکب کبیرہ کو ایمان سے خارج مانتے ہیں اور خارجی کافر جانتے ہیں ۔ چنان چہ شرح عقائد میں ہے: خلافاً للمعتزلۃ حیث زعموا ان مرتکب الکبیرۃ لیس بمومن ولا کافر ۔ معتزلہ کا اس میں خلاف ہے، انھوں نے کہا مرتکبِ کبیرہ نہ مومن ہے نہ کافر۔ خلافاً للخوارج فانھم ذھبوا الی ان مرتکب الکبیرۃ بل الصغیرۃ أیضًا کافر ۔ اور خارجیوں کا خلاف ہے ، وہ اس طرف گئے کہ مرتکب کبیرہ بلکہ صغیرہ بھی کافر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ سخت گناہ گار ہے لیکن مومن ہے ، اس کو بے ایمان جاننا معتزلہ اور خارجیوں کا مذہب ہے۔ زید کے اس قول پر کہ جو لوگ نماز نہیں پڑھتے وہ بے ایمان ہیں ، عالم صاحب کے سوالات مذکورہ فی السوال غالباً اس تحقیق کے لیے تھے کہ زید تارک نماز سے ایمان کی نفی کا کیا معنی لیتا ہے۔ اگر تشدیدًا اطلاق کرتا ہے یا کمالِ ایمان کی نفی کرتا ہے تو زید کا قول بن سکتا ہے مگر زید کا جواب دلیل ہے کہ زید تارک نماز کو مومن نہیں جانتااور یہ عقیدہ بد مذہب، بد دین معتزلہ اور خارجیوں کا ہے لہٰذا زید اور اس کے مؤیدین کو اس عقیدے سے توبہ کرنا چاہیے۔ امام مسجد نے زید کے اس غلط باطل قول کی تائید کی ہے لہٰذا امامِ مسجد کو بھی توبہ کرنا چاہیے، زید کی تائید میں یہ کہنا کہ زید جو کہتا ہے وہ کتاب میں لکھا ہے ۔ کتاب میں اگر کہیں اطلاق ہے بھی تو وہی مطلب ہے جو اوپر احادیث کے تحت بیان ہوا۔ ان مؤیدین کی لا علمی ہے کہ جانتے نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved