بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: زید کا قول صحیح ہے اور عمرو کا قول غلط ہے کیوں کہ حدیث شریف سے جس طرح گائے کی قربانی ثابت ہے اسی طرح بھینس کی قربانی بھی ثابت ہے۔ بھینس کی قربانی کے ثبوت میں حدیث مرفوع موجود ہے۔ عن جابر بن عبد اللہ قال نحرنا مع رسول اللہ ﷺ عام الحدیبیۃ البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ ۔ حضرت جابرسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی اونٹ کی سات آدمیوں کی طرف سے اور گاے /بھینس کی سات آدمیوں کی طرف سے ۔ حدیث میں لفظ” بقرہ “ آیا ہے ، عربی زبان میں” بقرہ “ کا معنیٰ گاے اور بھینس دونوں ہیں ۔ جیسا کہ لغت عرب کی معتبر کتاب» المغرب « میں ہے: الجاموس نوع من البقرۃ ۔ بھینس بقر کی ہی ایک قسم ہے المنجد میں ہے : الجاموس ضرب من کبار البقر۔ بھینس بڑی بقر کی ایک قسم ہے ۔ جب حدیث کالفظ بقر گائے اور بھینس دونوں کو شامل ہے تو جس طرح اس حدیث سے گائے کی قربانی ثابت ہے، اسی طرح بھینس کی قربانی بھی ثابت ہے ۔ اسی لیے فقہاے کرام نے فرمایا: الجوامیس والبقر سواء لأن اسم البقر یتناولھما۔ یعنی گاے اور بھینس دونوں برابر ہیں اس لیے کہ بقر دونوں کو شامل ہے ۔ نیز ہدایہ میں ہے : و یدخل في البقر الجاموس لأنہ من جنسہ ۔ بقر کا لفظ بھینس کو شامل ہے ۔ کیوں کہ بھینس اسی کی جنس سے ہے ۔ رد المحتار میں ہے : (والجاموس) ھو نوع من البقر کما في المغرب فھو مثل البقر في الزکاۃ والاضحیۃ والربا و یکمل بہ نصاب البقر۔ یعنی گاے بھینس کی قسم ہے جیسا کہ المغرب میں ہے پس وہ زکاۃ و قربانی میں مثل گاے کے ہے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے: الجاموس کالبقر.اھ بھینس بقر کی جنس سے ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org