21 November, 2024


دارالاِفتاء


ایک لڑکی مسماۃ بشیرن ، اس کی ۱۷؍ سال کی عمر میں شادی ہو گئی اور لڑکی ایک ماہ تک شوہر کے یہاں سسرال میں رہ کر پھر ماں باپ کے یہاں پہنچی اور اس مدت سکونت ميں بر مکان شوہر نہ وطی ہوئی، نہ خلوت ہوئی، پھر دو سال اپنے ماں باپ کے یہاں رہنے کے بعد طلاق حاصل کی یعنی شوہر نے اس کو تین طلاق دی اور بعد طلاق ہفتہ عشرہ گزار کر اس لڑکی کو دوسرے شوہر سے اس کے والدین نے عقد نکاح منعقد کر دیا اور لڑکی رضا مند اور خوش بھی ہے اور باقاعدہ استیذان کے بعد ہی شوہر ثانی سے نکاح ہوا ہے ۔ اسی حالت میں یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ شوہر سے بعد طلاق عدت پوری کرنے سے پہلے نکاح کیا ہے ۔ اسی بنا پر شوہر ثانی کو لوگوں نے امامت سے الگ کر دیا ہے ، اور اب شوہر ثانی سے بشیرن حاملہ بھی ہے اور حمل کی مدت سات ماہ ہو چکی ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اب شوہر ثانی پر شرعاً بلحاظ زمانہ و قانون کیا کیا عاید ہوتا ہے۔ اگرلوگوں کا اعتراض بجا ہے تو پھر وہ(شوہر ثانی) قابل بنانے کی صورت شرعاً کیا ہے۔ اور اگر اس کا یہ فعل گناہِ کبیرہ ہے تو شرعی توبہ کیا ہے۔ بینوا وتوجروا

فتاویٰ #1153

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اگر یہ واقعہ صحیح ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ شوہر اول سے وطی اور خلوت صحیحہ نہیں ہوئی تو اس صورت میں طلاق کی عدت نہیں ہے ۔ طلاق کے بعد نکاح صحیح و درست ہے ۔ شوہر ثانی بے گناہ ہے۔ اور اگر شوہر اول سے وطی یا خلوت صحیحہ ہوئی ہے تو بعد طلاق عدت ضروری ہے ۔ ایسی صورت میں یہ نکاح جائز نہیں ہے، جو لوگ باوجود علم کے اس نکاح میں شریک ہوئے وہ سب گنہ گار ہوئے۔ ان سب پر توبہ فرض ہے اور تجدید نکاح بھی ، یہی حکم امام صاحب کا ہے ، وہ بھی بالاعلان توبہ کریں اور بشیرن سے فوراً علاحدہ ہو جائیں ۔ اگر طلاق کی عدت ختم ہو گئی ہے یعنی طلاق کے بعد تین حیض آچکے ہیں تو اس سے نکاح کر لیں ، ورنہ عدت ختم ہونے کا انتظار کریں ۔ توبہ کے بعد امامت کر سکتے ہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved