8 September, 2024


دارالاِفتاء


اپنی زوجہ کی سوتیلی ماں سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ زید کہتا ہے کہ کتاب غایۃالاوطار ترجمہ اردو در المختار کے صفحہ۱۲؍ پر عبارت مرقوم ہے: وام زوجتہ وجداتہا مطلقاً بمجرد العقد الصحیح و إن لم توطا الزوجۃ۔ یعنی حرام ہے اپنی زوجہ کی ماں اور دادیاں اور نانیاں ہر طرح سے سگی ہوں یا سوتیلی حرمت ثابت ہوتی ہے۔بمجرد نکاح صحیح کے اگرچہ زوجہ سے جماع نہ کیاہو۔ اور کتاب مذکوربالا کا ترجمہ ایسا ہی مولوی خرم علی بلھوری و مولوی محمد احسن صاحب صدیقی نانوتوی نے ترجمہ میں لکھا ہے اور جناب نواب کلب علی صاحب مرحوم والی رامپور کے اہتمام سے ترجمہ ہوا ہے، آیایہ صحیح ہے یا نہیں؟ مدلل مع حوالہ جات کے جواب مرحمت فرمائیے گا ۔

فتاویٰ #1065

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: زید کا یہ قول غلط ہے کہ زوجہ کی سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہے۔ قال اللہ تعالیٰ: وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ .) ( یعنی جو عورتیں اوپر کی آیت: ” حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ“) ( میں بیان کی گئیں ان کے علاوہ تمہارے لیے حلال ہیں اور زوجہ کی سو تیلی ماں آیت حرمت میں بیان نہیں کی بلکہ زوجہ کی ماں کو بیان کیا ہے۔ قال اللہ تعالیٰ: وَ أمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ۔) ( اور تمہاری بیبیوں کی مائیں حرام ہیں ۔ ماں چونکہ دادی نانی کو بھی شامل ہے ۔ لہٰذا زوجہ کی ماں،دادی، نانی، پر دادی ،پر نانی، وغیرہ جس قدر اصول اوپر تک جائیں سب حرام ہیں۔ زوجہ سے خواہ وطی کی ہو، یا نہ کی ہو یہی معنی ہیں در مختار کے لفظ مطلقا کے ۔در مختار کی اوپر کی عبارت یہ ہے: و حرم المصاھرۃ بنت زوجتہ الموطوءۃ.) ( یعنی رشتہ دامادی سے اس منکوحہ کی لڑکی حرام ہے جس سے وطی کی ہو اور جس سے وطی نہ کی اس کی لڑکی حرام نہیں۔ اس کے بعد یہ عبارت ہے: و أم زوجتہ وجداتھا مطلقا.) ( اور زوجہ کی ماں اور دادیاں مطلقاً حرام ہیں ۔ اوپر کی عبارت صاف بتارہی ہے کہ مطلقا کی تعمیم زوجہ سے وطی کرنے نہ کرنے میں ہے ۔ماں کے حقیقی اور سوتیلی ہونے میں نہیں۔ اسی کی تفصیل بمجرد ا لعقد الصحیح و ان لم توطا الزوجۃ. سے کی ۔ ترجمہ کرنے والے نے غالباً لفظ ’’مطلقا‘‘سے دھوکا کھایا ہے کہ زوجہ کی سوتیلی ماں کو بھی حرام کردیا ہے یہ غلطی ہے ۔ امہات سوتیلی ماں کو ہرگز شامل نہیں ۔ کیوں کہ اگر لفظ امہات سو تیلی ماں کو شامل ہوتا تو قرآن مجید میں ” وَ أمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ۔“ سوتیلی ماں کو شامل ہوتا اور الگ سے ” وَلَا تَنْكِحُوٓا مَا نَکَحَ اٰبَآئِکُمْ “ ۔نہ فرمایا جاتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امہات میں سو تیلی ماں داخل نہیں لہذا و امہات نساءکم میں بھی زوجہ کی سو تیلی ماں داخل نہیں پھر وہ حرام کیسے ہوگی ۔ اصل یہ ہے کہ ساس کی حرمت اس وجہ سے نہیں کہ وہ خسر کی زوجہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ زوجہ کی ماں ہے اور سو تیلی ساس زوجہ کی ماں نہیں لہٰذا اس کے حلال ہونے میں کوئی شبہ نہیں اس سے نکا ح جائز ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)(حاشیہ: اسلام میں کچھ خواتین رشتے کے لحاظ سے بہت ہی مقدس اور محترم و معظم ہیں جیسے ماں اور بیٹی وغیرہ، ان کے ساتھ نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے اور ان کے سوا بقیہ عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے، کیوں کہ وہ عورتیں اجنبیہ ہیں۔ قسم اول کی عورتوں کو محرمات کہا جاتا ہے، ان کی تفصیل قرآن پاک کی ان آیات میں بیان کی گئی ہے۔ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِيْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىِٕكُمْ وَ رَبَآىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١ٞ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ١ٞ وَ حَلَآىِٕلُ اَبْنَآىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ [قرآن حکیم،سورۃ النساء۴ ،آیت:۲۲] حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں اور عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں اُن بی بیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو تو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں میں حرج نہیں اور تمہاری نسلی بیٹوں کی بیبییں۔ تفسیر: اب اس کے بعد جس قدر عورتیں حرام ہیں ان کا بیان فرماتا ہے۔ ان میں سات تو نسب سے حرام ہیں اور ہر عورت جس کی طرف باپ یا ماں کے ذریعہ سے نسب رجوع کرتا ہو یعنی دادیاں و نانیاں خواہ قریب کی ہوں یا دور کی سب مائیں ہیں اور اپنی والدہ کے حکم میں داخل ہیں۔ پوتیاں اور نواسیاں کسی درجہ کی ہوں بیٹیوں میں داخل ہیں۔ یہ سب سگی ہوں یا سوتیلی ان کے بعد ان عورتوں کا بیان کیا جاتا ہے ، جو سبب سے حرام ہیں۔ دودھ کے رشتے شیر خواری کی مدت میں قلیل دودھ پیا جائے یا کثیر اس کے ساتھ حرمت متعلق ہوتی ہے۔ شیر خواری کی مدت حضرت امام اعظم کے نزدیک تیس ماہ اور صاحبین کے نزدیک دو سال ہیں۔ شیرخواری کی مدت کے بعد جو دودھ پیا جائے اس سے حرمت متعلق نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے رضاعت (شیرخواری) کو نسب کے قائم مقام کیا ہے اور دودھ پلانے والی شیر خوار کی ماں اور اس کی لڑکی کو شیر خوار کی بہن فرمایا۔ اس طرح دودھ پلائی کا شوہر شیر خوار کا باپ اور اس کا باپ شیر خوار کا دادا اور اس کی بہن ، اس کی پھوپھی اور اس کا ہر بچہ جو دودھ پلائی کے سوا اور کسی عورت سے بھی ہو خواہ وہ قبل شیر خواری کے پیدا ہوا یا اس کے بعد وہ سب اس کے سوتیلے بھائی بہن ہیں اور دودھ پلائی کی ماں شیر خوار کی نانی اور اس کی بہن ، اس کی خالہ اور اس شوہر سے اس کےجو بچے پیدا ہوں وہ شیر خوار کے رضاعی بھائی بہن اور اس شوہر کے علاوہ دوسرے شوہر سے جو ہوں وہ اس کے سوتیلے بھائی بہن ، اس میں اصل یہ حدیث ہے کہ رضاع سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں، جو نسب سے حرام ہیں اس لیے شیر خوار پر اس کے رضاعی ماں باپ اور ان کے نسبی و رضاعی اصول و فروع سب حرام ہیں۔ یہاں سے محرمات بالصہریۃ کا بیان ہے وہ تین ذکر فرمائی گئیں۔ بیبیوں کی مائیں، بیبیوں کی بیٹیاں اور بیٹوں کی بیبیاں ، بیبیوں کی مائیں صرف عقد نکاح سے حرام ہو جاتی ہیں خواہ وہ بیبیاں مدخولہ ہوں یا غیر مدخولہ (یعنی ان سے صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو) گود میں ہونا غالب حال کا بیان ہے ، حرمت کے لیے شرط نہیں۔ ان کی ماؤں سے طلاق یا موت وغیرہ کے ذریعہ سے قبل صحبت جدا ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ [مرتب غفرلہ] )

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved