8 September, 2024


دارالاِفتاء


علی حسین نے ایک لڑکی سے شادی کی۔ اس کے بعد لڑکی کی ماں سے زنا کیا اور وہ حاملہ ہو گئی اور لڑکا تولد بھی ہو گیا اور بستی کے لوگوں کو معلوم ہوا تو جس لڑکی سے شادی ہوئی تھی اس کو طلاق دلوایا اور اس کی ماں سے نکاح کروانا چاہتے ہیں تو نکاح جائز ہوگا یا نہیں ؟فقط والسلام۔

فتاویٰ #1057

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: علی حسین نے جس لڑکی سے شادی کی اس لڑکی کی ماں علی حسین پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی ۔ قرآن مجید میں فرمایا: وَاُمَّھٰتُ نِسَائِکُمْ۔ اور تمہاری بیویوں کی مائیں تم پر حرام ہیں ۔ لڑکی کی ماں سے زنا کرنے سے وہ لڑکی بھی اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی۔ کسی طرح بھی نہ لڑکی اس کے نکاح میں آ سکتی ہے نہ لڑکی کی ماں ۔ علی حسین اور لڑکی کی ماں دونوں بد ترین مجرم ہیں ۔ اسلامی حکومت ہوتی تو دونوں پر حد قائم کی جاتی۔ ان دونوں پر توبہ فرض ہے اور دونوں کو فوراً علاحدہ ہو جانا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ) ( (فتاوی حافظ ملت) (حاشیہ: جب علی حسین نے اپنی بیوی کی ماں سے زنا کیا تو اس کی بیوی کا نکاح فاسد ہو گیا اس لیے اس پر اس عورت سے متارکہ واجب ہو گیا۔ متارکہ یہ ہے کہ وہ کہے: ”میں نے اپنی عورت کو چھوڑ دیا۔“ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسے طلاق دی“ مگر یہ فی الواقع طلاق نہیں جب تک کہ یہ متارکہ نہ ہو عورت نکاح سے باہر نہ ہوگی۔ اس مسئلے کی پوری تحقیق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے رسالہ ”ھبۃ النساء فی تحقق المصاہرۃ بالزنا“ میں ہے۔ ہم اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لیے یہاں اسی رسالے کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں۔ محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں یہاں بعض احادیث اپنے مذہب کی مؤیدات ذکر فرمائیں، ازاں جملہ، قال رجل یا رسول اﷲ انی زنیت بامرأۃ فی الجاھلیۃ افانکح ابنتھا قال لااری ذٰلک ولایصح ان تنکح امرأۃ تطلع من ابنتھا علی ماتطلع علیہ منھا. ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک عورت سے زنا کیاتھاکیا اس کی بیٹی سے نکاح کرلوں، فرمایا: میری رائے نہیں اور نہ ایسا نکاح جائز ہے کہ تو بیٹی کی اس چیز پر مطلع ہو جس چیز پر اس کی ماں کی مطلع تھا۔ اقول نیز اس کے مؤید ہے وہ حدیث کہ غایہ سمعانیہ میں حضرت ام ہانی بنت ابی طالب سے روایت کی کہ حضور سید المرسلین ﷺنے فرمایا: من نظر الٰی فرج امرأۃ بشھوۃ حرمت علیہ امھا وبنتھا. جو کسی عورت کی فرج کو شہوت سے دیکھے اس پر اس عورت کی ماں اور بیٹی حرام ہوجائیں گی۔ دوسری حدیث میں ہے: ملعون من نظر الی فرج امرأۃ وبنتھا. ملعون ہے وہ جوکسی عورت اور اس کی بیٹی دونوں کی فرج دیکھے۔ عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں حضرت ابراہیم نخعی سے روایت کی: من نظر الٰی فرج امرأۃ وبنتھا لم ینظر اﷲ الیہ یوم القیامۃ. جو کسی عورت اور اس کی دختر دونوں کی فرج دیکھے اللہ تعالیٰ روز قیامت اس پر نظر رحمت نہ کرے۔ نیز مصنف حضرت عمران بن حصین سے ہے:فی الذی یزنی بام امرأتہ قال حرمتا علیہ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم۔ یعنی اپنی ساس سے زنا کرنے والے کی نسبت فرمایا کہ اس پر ساس اور عورت دونوں حرام ہوگئیں۔ اس حرمت کے پیدا ہونے سے مرد وزن کو جدا ہوجانااورا س نکاح فاسد شدہ کا فسخ کردینا فرض ہوجاتا ہے مگرخود بخود نکاح زائل نہیں ہوجاتا، یہاں تک کہ شوہر جب تک متارکہ نہ کرے اور بعد متارکہ عدت نہ گزرے عورت کو روا نہیں کہ دوسرے سے نکاح کرے، اور قبل متارکہ شوہر کا اس سے وطی کرنا حرام ہوتا ہے مگر زنا نہیں کہ نکاح باقی ہے، ولہٰذا اس وطی سے جو اولاد پیدا ہوئی ہو صحیح النسب ہے ایسے نکاح کے ازالہ کو جو الفاظ کہے جائیں طلاق نہیں بلکہ متارکہ کہلاتے ہیں اگرچہ بلفظ طلاق ہوں یہاں تک کہ ان سے عدد طلاق کم نہیں ہوتا۔درمختار میں ہے: بحرمۃ المصاھرۃ لایرتفع النکاح حتی لایحل لھا التزوج بآخر الابعد المتارکۃ وانقضاء العدۃ والوطئ بھا لایکون زنا .ردالمحتار میں ہے: قال فی الذخیرۃ ذکر محمد فی نکاح الاصل ان النکاح لایرتفع بحرمۃ المصاہرۃ والرضاع بل یفسد حتی لووطئھا الزوج قبل التفریق لایجب علیہ الحد اشتبہ علیہ اولم یشتبہ علیہ ۔اسی میں ہے: قال فی الحاوی والوطئی فیھا لایکون زنا لانہ مختلف فیہ وعلیہ مھرالمثل بوطئھا بعدالحرمۃ ولاحد علیہ ویثبت النسب۔اسی میں ہے: فی البزازیہ المتارکۃ فی الفاسد بعد الدخول لاتکون الابالقول کخلیت سبیلک اوترکتک ومجرد انکار النکاح لایکون متارکۃ اما لو انکر وقال ایضا اذھبی وتزوجی کان متارکۃ والطلاق فیہ متارکۃ لکن لاینقص بہ عدد الطلاق۔ اوریہیں سے ظاہر ہوا کہ اس حالت میں اگر شوہر نے نہ چھوڑا اور ناجائز طور پر ہندہ سے وطی کرتا رہا اور اولاد ہوئی تو وہ اولاد اپنے ماں باپ دونوں کی وارث ہے، ماں کی وراثت تو ظاہر کہ اولاد زنا بھی اپنی ماں کی میراث پاتی ہے کما نصوا علیہ والمسألۃ فی الدر وغیرہ (جیسا کہ فقہاے کرام نے اس پر نص کی ہے اور یہ مسئلہ در وغیرہ میں ہے۔ ت) او رباپ کی وراثت یوں کہ ابھی منقول ہوچکا کہ ایسی حالت کی اولاد ولدالزنا نہیں صحیح النسب ہے، ہاں زن وشوہرآپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔ وا ﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved