بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــ: زکاۃ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال کی طہارت کے لیے فرض کی ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ کسی مسلمان فقیر کو مالِ زکاۃ کا مالک کر دیا جائے اور یہ زکاۃ محض اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لیے ادا کی جائے۔ مالِ زکاۃ اجرت و تنخواہِ معلم میں نہیں خرچ کر سکتے ۔ مصارفِ زکاۃ •فقیر•مسکین•مکاتب•ابن سبیل• فی سبیل اللہ• عامل اور •قرض دار ہیں۔ مکتب آج کل ہمارے دیار میں نہیں ہوتا، اسی طرح عامل بھی نہیں۔ مصارفِ زکاۃ میں سے جس مصرف میں چاہیں زکاۃ دے سکتے ہیں اور سب مصارف میں صرف کریں یہ بھی جائز ہے۔ طالب علم کہ علمِ دین پڑھتا ہے، یا پڑھنا چاہتا ہے ، اس کو زکاۃ دینا بھی راہِ خدا میں دینا ہے ، بلکہ طالب علم سوال کر کے بھی مالِ زکاۃ لے سکتا ہے ، اگرچہ کسب پر قادر ہو۔ ہر نیک کام میں زکاۃ خرچ کرنا فی سبیل اللہ ہے جب کہ بطورِ تملیک ہو کہ بغیر تملیک زکاۃ ادا نہیں ہوتی۔ درِ مختار و رد المحتار میں ہے: ’’و فی سبیل اللہ و ھو منقطع الغزاۃ. و قیل: الحاج. و قیل: طلبۃ العلم، کذا فی الظہیریۃ ولمرغینانی ... قال في الشرنبلالیۃ : لأن طلب العلم لیس إلا استفادۃ الأحکام و ھل یبلغ طالب رتبۃ من لازم صحبۃ النبی ﷺ لتلقي الأحکام عنہ کأصحاب الصفۃ فالتفسیر بطالب العلم وجیہ خصوصا و قد قال في البدائع: ”في سبیل اللہ“ جمیع القرب فیدخل فیہ کل من سعی في طاعۃ اللہ و سبیل الخیرات إذا کان محتاجاً۔اھ‘‘ ) ( بہارِ شریعت میں ہے: ’’بہت سے لوگ مالِ زکاۃ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں، ان کو چاہیے کہ متولیِ مدرسہ کو اطلاع کر دیں کہ یہ مالِ زکاۃ ہے، تاکہ متولی اس مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلبہ پر صرف کرے، کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکاۃ ادا نہ ہوگی۔‘‘ ) ( واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org