21 November, 2024


دارالاِفتاء


عمر ونے ۱۹۸۵ء میں کپڑے کی تجارت شروع کی جو کہ آج تک جاری ہے۔ عمرو نے جب دکان رکھ کر کپڑے کی تجارت شروع کی تھی اس وقت جون کے مہینے میں ماہ مبارک رمضان آتا تھا اور عمرو اپنا سالانہ حساب کر کے ماہ مبارک میں اپنی زکات ادا کرتا تھا اب جب کہ رمضان المبارک کا مہینہ فروری ومارچ میں آتا ہے اور عمرو اپنی آمدنی وغیرہ کا حساب ہر سال جون میں کرتا ہے اور مال کی زکات ماہ مبارک میں ادا کرتا ہے تاکہ ثواب میں زیادتی ہو، تو کیا عمرو کی زکات صحیح ادا ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو عمرو پھر کس صورت پر زکات ادا کرے؟ زمزم ڈریسیز، صدا بازار، پیٹھ ذونار، پونہ، ایم ایس

فتاویٰ #2635

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم - الجواب---- زید کی زکات ادا تو ہوجاتی ہے مگر زکات کی ادایگی میں تاخیر کی وجہ سے گنہ گار ہوتا ہے۔ سال پورا ہونے پر زکات فوراً بلا تاخیر ادا کرنا واجب ہے۔ دیر کرنا گناہ ہے ۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: وافتراضھا عمري وقیل فوري وعلیہ الفتوی . (الدر المختار فوق رد المحتار، ص:۱۹۱ ، ج:۳ ، کتاب الزکاۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت(۔ رمضان میں زکات ادا کرنے کی فضیلت حاصل کر نے کے لیے یہ کرے کہ پیشگی رمضان میں ادا کردے ۔ اس کو بہر حال ایک اندازہ تو ہوگا ہی کہ مجھ پر اتنی زکات واجب ہے اور اب ترقی کر کے جون تک میری مالیت اتنی ہو جائے گی اندازہ سے کچھ زائد ادا کرے اور پھر سال تمام پر حساب کرنے پر ادا شدہ رقم کچھ کم پڑے تو بقیہ اب ادا کرے۔ واللہ تعالی اعلم۔ ۱۸؍ ذو قعدہ ۱۴۱۳ھ ۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved