21 November, 2024


دارالاِفتاء


میں نے شیر خریدے ہیں، اور شیر میں جو روپے ہم ڈالتے ہیں اس کو بعد میں بیچنے پر نفع بھی ہو سکتا ہے اور نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ اب میرے پاس جو شیر خریدے ہوئے ہیں ان پر میں کس حساب سے زکات نکالوں اس کے دام پر جتنے میں اسے خریدا ہوں (اس کا دام ہمیشہ یکساں نہیں رہتا ہے۔) اس کا دام قیمت خرید سے زیادہ بھی اور کم بھی ہوتا ہے،مجھے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ قیمت خرید پر نکالنا چاہیے۔ جو شیر ہم خریدتے ہیں ان روپیوں کا کمپنی ۳؍ طریقے سے زیادہ تر استعمال کرتی ہے۔ (۱) کمپنی کی بلڈنگ اور شیر بنانے میں (۲) مشین خریدنے میں اور (۳) باقی روپیہ کچھ مال خرید کر بناتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ مٹی اور لوہے کی بنی چیز پر زکات نہیں ہوتی ہے اس لیے ہم اپنی خریدی ہوئی شیر کے رقم کو ۳؍ حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے پر جو کاروبار میں لگتی ہے اس پر زکات دیں تو چلے گا کہ نہیں، یا پوری رقم پر زکات نکالیں مہربانی فرماکر جواب دیں۔ حاجی نور محمد، نارائن دھرواسٹریٹ، پانچویں منزل ، ممبئی

فتاویٰ #2618

شیر خریدنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی کمپنی کا ایک حصہ خریدا مثلا ہزار حصہ میں سے ایک حصہ۔ ایسی صورت میں شیر خریدنے میں جو رقم صرف ہوئی اس پر زکات نہیں کیوں کہ وہ رقم اب شیر خریدنے والوں کی ملک میں نہ رہی بلکہ جس سے شیر خریدا ہے اس کی ملک ہو گئی اور خریدار کی ملک میں کمپنی کا وہ حصہ آیا جو اس نے خریدا ہے مثلا ہزار حصہ میں سے ایک حصہ ۔ کارخانے ، فیکٹریوں پر زکات نہیں(شیَر کمپنی کے ’’شیَر‘‘ آغاز کار میں روپے ہوتے ہیں، اگر وہ روپے خود یا دوسرے مال زکات کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائیں تو زکات فرض ہوگی۔ کمپنی نے جب تک مال خرید کر کاروبار نہیں شروع کیا ہے تب تک وہ شرکت کے روپے ہیں جو کمپنی کے پاس رہتے ہیں۔ اور جب کمپنی اس سے مال مثلاً کپڑا خرید کر تجارت شروع کرتی ہے تو یہ روپے مثلاً کپڑا بیچنے والے کی ملک ہو جاتے ہیں کہ یہ کپڑے کے دام ہوتے ہیں اور ان کے بدلے میں جو کپڑا خریدا گیا اب اس میں شرکت ہو جاتی ہے۔ وہ متاعِ شرکت خود بقدر نصاب ہو یا دوسرے مال زکات سے مل کر ہو تو زکات فرض ہوگی۔ اور اگر شرکت کے روپے جمع کر کے ان سے کوئی فیکٹری یا کارخانہ قائم کیا گیا تو فیکٹری یا کارخانے پر زکات نہ ہوگی لیکن جب فیکٹری یا کارخانے سے مال تیار ہوگا تو وہ متاع شرکت ہوگا اس میں شرائط زکات پائے جانے کی صورت میں زکات فرض ہوگی ۔ یہ اختصار کے ساتھ تمام ضروری گوشوں کا حکم ہے۔ محمد نظام الدین رضوی)؛ اس لیے کہ یہ پیشہ وروں کے آلات کے حکم میں ہیں جن میں زکات نہیں۔ ہاں اگر نفع میں اتنی رقم ملی جو بقدر نصاب ہو تو اس نفع پر زکات ہے۔ مثلا زید نے کسی کمپنی کا ۱یک حصہ ایک لاکھ میں خریدا تو اب اس ایک لاکھ پر زکات نہیں؛ لیکن فرض کیجیے کمپنی کو ایک کروڑ کا نفع ہوا تو اس ایک کروڑ میں زید کا حصہ ایک لاکھ ہوا ، اس ایک لاکھ پر زکات ہے ۔ الفتاوی الہندیہ میں وجوب زکات کے شرائط میں ہے: منھا فراغ المال عن حاجتہ الأصلیۃ فلیس فی دورالسکنی (إلی أن قال) زکاۃ (إلی أن قال) وکذافی کتب العلم إن کان من أہلہ وآلات المحترفین(الفتاوی الھندیۃ، ص: ۱۹۰، ج:۱،کتاب الزکاۃ، الباب الأول فی تفسیرہا وصفتہا وشرائطہا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔)۔ واللہ تعالی اعلم۔ ۲۵؍ ذو الحجہ ۱۴۱۲ھ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved