(۱) سال پوراہونے پر اس کا جتنا نقد بچے اس کا چالیسواں حصہ ادا کردے۔ مثلا تین لاکھ اس کا جمع ہے اور سال پورا ہونے پر بھی یہ تین لاکھ رہے گا تو تین لاکھ کی زکات ساڑھے سات ہزار روپے ادا کرے۔ تین لاکھ روپے جمع کرنے پر ہر ماہ اس کو جو رقم ملی ہے اور خرچ ہو گئی اس پر زکات نہیں۔ البتہ چوں کہ تین سال پورا ہونے سے پہلے یہ رقم بینک سے نکال نہیں سکتا اس لیے سال اول اور دوم کی زکات ادا کرنا فورا ضروری نہیں۔ جب روپیہ وصول کرے گا اس وقت گزشتہ دنوں کی بھی زکات فورا ادا کرنا ضروری ہوگا جس میں اس پر بار پڑے گا، اس لیے وہ ہر سال کی زکات اسی سال میں نکال دے۔ واللہ تعالی اعلم (۲) اگر یہ عورت مالک نصاب نہیں تو اسے زکات اور صدقۂ فطر کی رقوم دینا جائز ہے، اور یہ ضروری نہیں کہ اسے بتایا جائے کہ یہ زکات اور فطرہ کی رقم ہے۔ بہ نیت زکات دےدینا کافی ہے۔ مگر یہ تحقیق کر لیجیے کہ مالک نصاب نہیں اگر اس کے پاس اس کی ملکیت کے سونے چاندی کے زیورات اتنے ہوں کہ وہ مالک نصاب ہو جائے تو پھر اسے زکات اور فطرہ کی رقم دینا جائز نہیں۔ واللہ تعالی اعلم ۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org