8 September, 2024


دارالاِفتاء


بسم اللہ الرحمن الرحیم دارالافتاح گزارش ہے کے سائل میر افسر ولدسائیں خان بیرون ملک سعودی عرب میں تھا کہ میری بیٹی اقراء کا نکاح ہمراہ عبدالمنان ولد محمد نصیر جو لاہور میں رہتے ہیں ہوا ۔میں نے اپنی غیر موجودگی میں اپنی بیٹی کے ماموں کو ولی مقرر کیا بوقت نکاح جب زیورات مہر میں مقرر کرنا طے پایا گیا تو لڑکے والوں نے بہانا کیا کہ ہم نے جس گھرمیں زیورات رکھے تھے وہ کرو نا کے باعث سیل (seal) ہوگیا لہذہ ہم زیورات نہیں نکال سکے۔ لہذا ان کے کہنے پر 4 تولے سونا مہر مقرر ہوا ۔لیکن یہ ایک فراڈ تھا جو آج تک برآمد نہیں ہو سکا ۔ لڑکی کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی پیدائش کے چھ ماہ بعدلڑکے نے اپنی ساس کو فون کر کے کہا کہ میں نے آپ کی بیٹی کو طلاق دے دی ہے ا سے آ کر لے جائیں پھر لڑکے کی والدہ نے بھی یہی پیغام دیا ۔پھر لڑکی کو آج تک ذاتی موبائل فون میسر نہیں ہوا اس لیے اس نے اپنے خاوند کے فون سے ایس ایم ایس کیا کہ مجھے طلاق ہو گئی ہے آ کر مجھے لے جائیں میری بیوی محلے کے تین آدمی لے کر لاہور ان کے گھر پہنچی تو انہوں نے بدتمیزی کی اور لڑکی بھیجنے سے انکار کر دیا انہوں نے کہا کہ ہم نے مولوی صاحب کو بلایا تھا انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایک موقع پر دی گئی تین طلاقیں صرف ایک واقعہ ہوتی ہے لہذا میاں بیوی پہلے کی طرح ازدواجی تعلقات قائم کر سکتے ہیں بس چند بندوں کو کھانا کھلا دیں کفارہ ادا ہو جائے گا جو بندے میری بیوی کے ہمراہ لاہور گئے تھے انہوں نے لڑکی اور لڑکے سے طلاق کی تصدیق کی تو انہوں نے اقرار کیا لیکن لڑکی کو بھیجنے سے انکار کر دیا ابھی جب میں پاکستان چھٹی آ رہا تھا تو بڑی مشکل سے اپنی بیٹی کو کشمیر ملنے کے لیے بلایا تو انہوں نے 9 ماہ کے بچے کو ماں کے ساتھ نہیں بھیجا میں نے بیٹی سے حالات جاننے کی کوشش کی تو اس نے بتانے سے گریز کیا میری بیٹی کو طلاق ہوئی ہے اور وہ طلاق کے باوجود اپنے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہےاور لڑکے والے بھی طلاق دینے کے باوجود اسے گھر رکھنا چاہتے ہیں میرے داماد کے بڑے بھائی نے بھی اپنی بیوی کو زبانی طلاق دی اس کو بھی ماں باپ نے روک لیا لیکن قانونی کارروائی کے لیے کوئی تحریری طلاق موجود نہ ہے۔اس لڑکی کو بھی طلاق کے باوجود دوبارہ بلا رہے ہیں ہمارے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کے زبانی طلاق دے دی ہے لیکن تحریری موجود نہ ہے اس وقت معاشرہ فراڈ اور دھوکہ دہی میں مبتلا ہے شرعی معاملات کو پست رکھ کر اپنی من مرضی کا دین بنا رکھا ہے زنا کے ساتھ بددیانتی جھوٹ فراڈ عام ہے۔ اس معاشرے کی اکثریت طلاق ہونے کے باوجود میاں بیوی بن کر رہے ہیں میری بیٹی کا شناختی کارڈ، تعلیمی اسناد، نکاح نامہ سب کچھ سسرال میں ہے۔لہذا قانونی چارہ جوئی میں بھی دشواری ہے میری چھٹی ایک ماہ رہ گئی ہے پھر سے روزگار کے لیے سعودی عرب جانا ہے اگر میرے جانے کے بعد بیٹی اپنے خاوند جس نے طلاق دی ہے اس کے پاس چلی گئی تو ساری عمر گناہ میں مبتلا رہے گی اور ہم بھی گناہ گار ہوں گے کیوں کہ میری بیٹی نے بھی اب اپنا بیان بدل لیا ہے اور وہ کہہ رہی ہے کہ اس نے اپنی ماں کے کہنے پر مجھے طلاق دی ہے ۔ اس متن میں دو سوال ہیں 1۔ نکاح میں دھوکہ سے مہر مقرر کر کر لینا اور اس کا ادا نہ کرنےسے نکاح کی نوعیت درست ہوگی اور میاں بیوی حقوق زوجیت ادا کر سکتے ہیں 2-طلاق کے باوجود اپنی من مرضی سے دیگر فقہاء کی مدد لیتے ہوئے طلاق کو باطل قرار دینا درست ہے ؟ مذکورہ بالا صورت حال میں مجھے ایسا جامع اور مفصل فتوی جاری فرمایا جائے کہ ہم اپنے اللہ کے سامنے بھی سرخرو ہو جائیں اور قانونی معاونت کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو میر افسر خان گاوں مندری تحصیل دیر کوٹ ضلع باغ آزاد کشمیر ۔

فتاویٰ #2124



Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved