----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱)- قضاے عمری کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں اور نہ کسی خاص وقت میں اسے ادا کرنا افضل ہے۔ سارے اوقات یکساں ہیں البتہ یہ ضروری ہے کہ حسب توفیق وفرصت جس قدر جلد ہو سکے ادا کرے تاخیر نہ کرے حتی کہ نوافل کے بجاے قضاے عمری ہی ادا کرے؛ اس لیے کہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اگر نوافل واوراد وظائف چھوڑ دےگا تو کوئی مواخذہ نہیں، لیکن اگر نمازیں ذمے میں رہ جائیں گی تو ان پر مواخذہ ہے۔ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے کے بیس منٹ پہلے تک قضا نمازیں پڑھ سکتے ہیں ان اوقات میں صرف نوافل مکروہ ہیں۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: وکرہ نفل قصدا ولو تحیۃ مسجد (إلی أن قال) بعد صلاۃ فجر وصلاۃ عصر لا یکرہ قضاء فائتۃ ولو وترا۔ واللہ تعالی اعلم (۲)- مقتدی اور منفرد قبلہ رخ ہی رہ کر دعا مانگے گا البتہ امام کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اپنے داہنے یا بائیں یا مقتدیوں کی طرف رخ کرکے دعا مانگے، مقتدیوں کی طرف اگر رخ کرے تو اس کا خیال رکھے کہ پیچھے، امام کے محاذی کوئی نماز نہ پڑھ رہا ہو۔ افضل یہ ہے کہ امام داہنی طرف رخ کر کے دعا مانگے۔ واللہ تعالی اعلم (۳)- اس میں کوئی حرج نہیں کہ مسجد سے نکلتے وقت قبلہ کی جانب پیٹھ ہو لیکن اگر کوئی شخص قبلہ کو رخ کر کے الٹے قدم مسجد سے نکلے تو حسن ادب کی وجہ سے ثواب کی امید ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org