8 September, 2024


دارالاِفتاء


(الف) امام نماز فرض میں قعدۂ اولی بھول گیا اور تکبیر کہتا ہوا رکوع کی حالت تک پہنچا تھا کہ مقتدیوں میں سے ایک یا دو نے لقمہ دیا اور واپس قعدہ میں آیا۔ قعدۂ اخیرہ میں اس نے سجدۂ سہو کیا۔ نماز ہوئی یا نہیں؟ (ب) امام کے ہاتھ کی انگلیاں گھٹنہ سے سرک چکی تھیں تب قعدہ میں واپس آیا ۔ قعدۂ اخیرہ میں سجدۂ سہو کیا، اس کے لیے کیا حکم ہے؟ (ج) امام قطعی کھڑا ہوگیا تھا اس کے بعد مقتدی کا لقمہ لیا اور قعدۂ اخیرہ میں سجدۂ سہو کر کے نماز ختم کی۔ ایسی صورت میں نماز ہوئی یا نہیں جو حکم الف، ب، ج کے لیے فرمایا جائے گا، یہی حکم ہر فرض نماز کے لیے ہوگا۔ (ح) امام قعدۂ اخیرہ بھو ل کر یانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوجاتاہے ، مقتدی کے لقمہ پر بھی واپس نہیں آتا صرف یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ چوتھی رکعت ہے اس صورت میں مقتدی لقمہ دینے والا اور باقی مقتدی اور امام کے لیے کیا حکم ہے ،کیا ان کی نماز ہوئی یا واجب الاعادہ ہے؟ (د) امام لقمہ پر واپس قعدہ میں آتا ہے ، سجدۂ سہوبھی کرتا ہے اس کے لیے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ ہر سوال کا جواب بحوالہ حدیث عطا فرمایا جائے۔ بینوا وتوجروا

فتاویٰ #1977

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- مجتہدین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو مولی عز وجل اسلام ومسلمین کی جانب سے جزاے خیر دے کہ انھوں نے قرآن وحدیث سے مسائل شرعیہ استنباط فرما کر جزئیات کے احکام مصرح فرما دیے۔ اور ہمیں اس کدو کاوش سے نجات دی کہ ہم جزئیات کے احکام معلوم کرنے کےلیے قرآن وحدیث کے بحر بےکراں کی غواصی کریں، ہم پر تقلید واجب ہے۔ ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں قرآن وحدیث وغیرہ سے جو احکام مستخرج فرما کے بتادیے ہیں ان کو ماننا واجب اور عمل کرنا لازم ہے ،نہ ہم قرآن وحدیث سے مسائل استنباط کرنے کے اہل ،نہ اس کے مکلف۔ اس لیے سائل کا ہر سوال کے جواب میں ہم سے حدیث کا حوالہ مانگنا کسی طرح درست نہیں تاہم کوشش کریں گے کہ ان جزئیات کے احکام جہاں تک حدیث میں مل سکیں حدیث کے حوالے سے لکھیں۔ الف ، ب، ج کے بارے میں حدیث میں اتنا فرمایا گیا ہے: إذا قام الإمام في الرکعتین فإن ذکر قبل أن یستوي قائما فلیجلس فإن استوی قائما فلا یجلس ویسجد سجدتي السہو ۔ رواہ أبو داؤد وابن ماجہ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قعدۂ اولیٰ بھول کر اگر کوئی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو رہا تھا تو اگر وہ سیدھا کھڑا ہو گیا یا سیدھا کھڑے ہونے کے قریب تھا تو اسے لوٹنا جائز نہیں۔ اسے لازم ہے کہ قعدۂ اولیٰ چھوڑ دے اور بعد میں سجدۂ سہو کرے۔ اور اگر وہ سیدھا کھڑا نہ ہوا، نہ سیدھے کھڑے ہونے کے قریب تھا تو اسے پلٹ آنا چاہیے اور سجدۂ سہو واجب نہیں کہ اس صورت میں صرف ’’فلیجلس‘‘ فرمایا گیا۔ سجدۂ سہو کا حکم نہیں دیا ۔ حدیث میں ’’قائما‘‘ کا لفظ ہے حدیث کے تمام دفاتر تلاش کیجیے کہیں اس کی تفسیر نہیں ملے گی۔ لہذا فقہا کی طرف رجوع کی حاجت پڑی۔ فقہا فرماتے ہیں کہ اگر انسان کا نصف زیریں سیدھا ہوگیا تو ’’استوی قائما‘‘ کا حکم ہوگا کہ اقرب إلی القیام پایا گیا، اور ایسے مواقع میں اقرب إلی الشی کا حکم شے کا ہوتا ہے۔ رد المحتار میں ہے: إن استوی النصف الأسفل وظہرہ بعد منحن فہو أقرب إلی القیام وإن لم یستو فہو أقرب إلی القعود۔ لہذا صورت الف ، ب، ج[حاشیہ: یہاں دو صورتیں ہیں: ایک کھڑے ہونے اور از خود لوٹنے کی۔ اور دوسری صورت لقمہ قبول کر کے لوٹنے کی۔ حضرت شارح بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے پہلے پہلی صورت کا حکم بیان فرمایا ہے، پھر دوسری صورت کا جیسا کہ بعد کی عبارت سے بھی عیاں ہے۔ محمود علی مشاہدی]،میں سجدۂ سہو واجب تھا اور جب امام نے سجدۂ سہو کر لیا تو نماز ہوگئی۔ البتہ لوٹنا جائز نہیں تھا۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ لوٹنے کے بعد بھی سیدھا کھڑا ہوجائے؛ کیوں کہ بعض علمانے لوٹنے پر فساد نماز کا حکم دیا ہے اگرچہ صحیح یہی ہے کہ نمازفاسد نہ ہوگی۔ مگر اساءت کرنے والا ہوا۔ درمختار میں ہے: وإن استقام قائما لا یعود فلو عاد إلی القعود بعد ذلک تفسد صلاتہ وقیل لا تفسد لکنہ یکون مسیئا ویسجد لتاخیر الواجب وہو الأشبہ۔ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ امام خود لوٹتا۔ لیکن جب کہ کسی کے لقمہ دینے سے لوٹا تو بہر حال نماز فاسد ہو جائے گی کہ ان تینوں صورتوں میں لقمہ دینا جائز نہ تھا۔ غیر محل میں لقمہ دیا ۔ غیر محل میں لقمہ دینے سے لقمہ دینے والے اور لینے والے دونوں کی نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔ لہذا سوال میں مذکور ان تینوں صورتوں میں سجدۂ سہو کرنے کے بعد بھی نماز نہ ہوگی۔ واللہ تعالی اعلم قعدۂ اخیرہ فرض ہے اس کے ترک سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔ امام پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو جب تک پانچویں کا سجدہ نہیں کیا اور لوٹ آیا تو سجدہ [سہو] کر لینے سے نماز ہو جائے گی کہ اس صورت میں قعدۂ اخیرہ ترک نہ ہوا اپنی جگہ سے موخر ہو گیا اور اگر پانچویں کا سجدہ کرلیا توایک رکعت اور پڑھ کر چھ رکعت مکمل کرے اور یہ فرض نفل سے بدل گیا۔ در مختار میں ہے: ولو سہا عن القعود الأخیر کلہ أو بعضہ عَادَ ما لم یقیدھا بسجدۃ وإن قیدہا بسجدۃ تحول فرضہ نفلا برفعہ الجبہۃ، ملتقطاً۔ صورت مذکورہ میں واجب ہے کہ فرض پھر سے پڑھیں۔ صورت ’’ی‘‘ میں نماز ہوگئی امام ومقتدی دونوں کی۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved