8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید ایک صحیح العقیدہ سنی عالم دین ہے ۔ اس کی داڑھی کے بال گھنے نہ تھے تو زید نے داڑھی کو استرہ سے کٹوا دیا ہے اور وہ امامت بھی کرتا ہے۔ اب عوام نے اس پر اعتراض کیا کہ جب آپ عالم دین ہیں اور امامت بھی کرتے ہیں پھر آپ نے داڑھی کیوں کٹوائی؟ تو انھوں نے شمع ہدایت حصہ دوم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار داڑھی منڈانا مکروہ تنزیہی ہے اور گھنی کرنے کے لیے ایک دفعہ داڑھی کٹوایا جا سکتا ہے جس سے امامت میں فتور نہ ہوگا اور حدیث میں ہے کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے، میری نیت بال گھنا کرنا ہے۔ بال گھنا کرنے کے لیے ہم نے ایسا کیا۔ لیکن عوام کو ان کے جواب پر سکون نہ ہوا ہے لہذا مفتیان کرام کی بارگاہ میں گزارش ہے کہ از روے شرع کیا حکم ہے مدلل ومفصل بیان فرمایا جائے۔ کیا اس حالت میں ان کے پیچھے نماز ہوگی؟ عوام کی بےچینی کو دور فرمایا جائے ۔

فتاویٰ #1918

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- پہلی بات یہ ہے کہ امام صاحب کو مجبور کیجیے کہ وہ شمع ہدایت میں یہ مسئلہ دکھائیں۔ آپ خود لکھ کر اس کی اصل عبارت نقل کر کے بھیجیں ۔ گھنی کرنے کی نیت سے بھی داڑھی منڈوانا مکروہ تحریمی اور گناہ ہے۔ در مختار میں ہے: یحرم علی الرجل قطع لحتیه۔ امام صاحب داڑھی منڈانے کی وجہ سے فاسق معلن ہو گئے ۔ اعلان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بار بار منڈوائے۔ اعلان کے معنی بار بار کرنے کے نہیں بلکہ بلا پردہ کھلے بند کرنے کے ہیں۔ داڑھی منڈوانا ایسا فعل نہیں کہ چھپا رہ سکے۔ فاسق معلن کو امام بنانا گناہ۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ۔ داڑھی منڈانے کے بعد اب تک ان کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھی گئیں ہیں سب کا اعادہ واجب ہے۔ امام صاحب نے تو ایک گناہ کیا دوسرے عذر گناہ بدتر از گناہ کے بھی مصداق ہوئے۔وہ بھی اس طرح کہ عذر میں غلط مسائل بیان کیا ، ایک بار داڑھی منڈانے کو انھوں نے مکروہ تنزیہی کہا یہ غلط فتوی دیا ۔ دوسرے انھوں نے حدیث مبارک : ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ میں تحریف معنوی کی ۔ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی گناہ کرے اور بہانہ بنالے۔ اگر حدیث کا یہ مطلب لیا جائے تو پھر امان اٹھ جائے۔ ایک شخص پیشاب پیے اور کہے کہ میری نیت یہ ہے کہ پیٹ کی بیماریوں سے محفوظ رہوں جیسا کہ ڈیسائی کیا کرتے تھے ۔ ایک شخص زنا کرے اور یہ کہے کہ چوں کہ میری بیوی نہیں اور شادی ہونے میں دیر ہے ، میری صحت خراب ہو رہی ہے اور اطبا نے یہی علاج بتایا ہے ۔ یا یہ کہے کہ مجھے برداشت کی قوت نہیں اگر زنا نہ کروں تو اندیشہ ہے اپنی ماں یا بہن کے ساتھ ملوث نہ ہو جاؤں تو امام صاحب کی تشریح کے مطابق یہ سب جائز ہو جائے گا۔ گناہ انسان سے ہو جاتا ہے امام صاحب پر لازم تھا کہ وہ اقرار کر لیتا کہ مجھ سے گناہ ہوا اور توبہ کرلیتے بات ختم ہوجاتی۔ مگر انھوں نے گناہ کو فعل مستحسن بنانے کے لیے جرم در جرم کا ارتکاب کیا۔ حدیث پاک : ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ نیک کاموں پر ثواب ملنا نہ ملنا نیت پر ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کے لیے نیک کام کرے گا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر کوئی شخص دنیا کے لیے، دکھاوے کے لیے کوئی نیک کام کرے گا تو ثواب سے محروم رہے گا ۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کوئی گناہ اپنے جی سے گڑھ کر کسی اچھی نیت سے کرے تو جائز ہے۔ امام پر فرض ہے کہ وہ ان سب باتوں سے توبہ کرے۔ اگر ان باتوں سے توبہ کرے تو اس کی امامت درست ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو اسے بلا تاخیر امامت سے معزول کر دیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved