----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- ایک ہی بات کو عبارت بدل بدل کر دوبارہ استفتا کی کیا ضرورت تھی۔ عمرو ایک نہیں کئی کئی گناہ کا مرتکب ہوا، اس نے غلط حکم شرعی بیان کیا، بے علم ہوکر فتویٰ دیا، مسلمانوں کی نماز عید اضحیٰ کو رائگاں کیا، مسلمانوں کی قربانیوں کو برباد کیا، حکم شرعی معلوم ہونے کے بعد بھی عوام کو اس سے مطلع نہ کیا، بلکہ اسے چھپایا، پھر پھاڑ کر پھینک دیا۔ اس پر ان تمام باتوں سے توبہ تو فرض ہے ہی، مسلمانوں کو لازم ہے کہ اسے امامت سے فوراً الگ کردیں۔ اور اگر توبہ بھی کرلے تو بھی اس کو امامت پر نہ رکھیں۔ ایسے ناخدا ترس، ضدی سے کیا بعید کہ آیندہ پھر وہ کوئی نہ کوئی اسی قسم کی حرکت کر بیٹھے۔ یہ عالم نہیں، عالم نما جاہل ہے، اسے عالم کہنا گناہ۔ عالم کی شان یہ ہوتی ہے کہ جو بات اسے معلوم نہیں ہوتی اس کے بارے میں صاف کہہ دیتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ حدیث میں ہے: إِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ : اللہُ أَعْلَمُ۔ عالم وہ ہوتا ہے کہ اگر اس نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے تو علم کے بعد رجوع کرلیتا ہے اور اپنے رجوع کا اعلان عام کردیتا ہے۔ صرف کسی مدرسے سے فارغ ہوجانا اور سند کا، مِل جانا عالم ہونے کے لیے کافی نہیں۔ آج کل عربی مدارس ۷۵؍ فی صد جاہلوں کو فاضل کی سند دے دیتے ہیں، اور دستار بندی کردیتے ہیں، صرف اس لیے کہ ہمارے مدرسے کی شہرت ہو، اور ہم کو خوب چندہ ملے۔ اس زمانے کے بارے میں حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے: اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُھَّالًا فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ۔ اس میں ۹۹؍فی صد جرم عوام کا ہے، اگر کوئی شخص علم کا بحر ذخار ہے لیکن پیر نہیں یا خوش آواز، چرب زبان، لچھے دار مقرر نہیں تو اسے عالم ہی نہیں سمجھتے، لیکن اگر کوئی پیر ہے، تو اگرچہ کچھ بھی نہ پڑھا لکھا ہو، اسی کو سب سے بڑا عالم سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی چرب زبان، لچھے دار مقرر ہو، اس کو سب سے بڑا عالم سمجھتے ہیں۔ حدیث کے حسب فرمان جاہلوں کو اس کی سزا ملےگی اور ملتی ہے، جیسا کہ آپ کے یہاں ہوا کہ نماز عید اور قربانی سے محروم ہوئے، پیسے ضائع کیے اور گنہ گار الگ ہوئے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org