22 December, 2024


دارالاِفتاء


گاؤں میں دو بھائیوں کے مابین نزاع تھا، ایک بھائی بکر نے جھوٹی قسم کھاکر تمام جائداد ہڑپ لی، اس نزاعی معاملے کے بارے میں استفتا کرکے مختلف دار الافتا سے جواب طلب کیا گیا، جن میں بریلی شریف اور براؤں شریف بھی شامل تھے، دونوں دار الافتا کے جواب میں بکر کو لائق توبہ اور قابل سزاے دنیا و آخرت ٹھہرا کر، مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ جب تک علانیہ توبہ کرکے اپنے بھائی سے معافی نہ مانگ لے اس وقت تک سلام و کلام بند کرکے معاشرتی بائیکاٹ کردیں۔ ایک عالم دین چند مہینے قبل گاؤں میں تشریف لائے، انھوں نے تنہائی میں بلا کر توبہ کروالی اور دیگر افراد کو مطلع بھی نہیں کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے توبہ کروا لینے سے اس کے وہاں کھانا پینا جائز ہوگیا؟ تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور جب ان کے سامنے جواب استفتا پیش کیا گیا تو انھوں نے غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر دیکھنے کے لائق ہوا تو دیکھا جائےگا، ورنہ نہیں‘‘۔ حالاں کہ سبھی فتاوے قابلِ سند دار الافتا کے ہیں۔ شریعت مطہرہ کی رُو سے ایسے عالم کے پیچھے نماز کی اقتدا کرنا یا دوسرے معاملات میں ان سے رابطہ رکھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ #1772

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- مستند دار الافتا کے فتاویٰ کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’اگر وہ دیکھنے کے لائق ہوا تو دیکھا جائےگا‘‘ بہت سخت ہے، اس میں کفر کا بھی پہلو ہے۔ اس عالم پر اس قول سے توبہ فرض ہے۔ اور احتیاطاً تجدید ایمان ونکاح بھی۔ جب تک یہ توبہ نہ کریں ان کے پیچھے نماز ہرگز ہرگز نہ پڑھی جائے اور ان سے کوئی معاملہ نہ رکھا جائے۔ اس جملے میں حکم شرع کی تخفیف اور تحقیر ظاہر ہے۔ اور اس کو فقہا نے کفر لکھا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved