8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید کی والدہ کا انتقال ہوگیا، ابو بکر پیش امام اور سعید مؤذن جنازے میں شامل ہیں، وصیت کے سبب زید نے سعید کو نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کہا۔ سعید کے نماز جنازہ پڑھانے پر ابو بکر اور کچھ لوگوں نے یہ کہتے ہوئے کہ مؤذن کے پیچھے نماز درست نہیں، چلے گئے اور بعد میں پھر دعویٰ کیاکہ نماز جنازہ پڑھانے کا حق میرا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ: (۱) یہ نماز جنازہ ہوئی یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کا صحیح حل کیا ہے؟ (۲) اس معاملے میں میت کی وصیت کی پابندی ضروری ہے یانہیں؟ (۳) زید اپنی ماں کی میت کا ولی ہے کیا اس کو یہ حق شریعت نے دیا ہے کہ خود نماز جنازہ پڑھائے یا کسی دوسرے معتبر شخص کو نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دے؟ (۴) زید کی اجازت کے بغیر کیا ابو بکر زید کی والدہ کی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے؟

فتاویٰ #1749

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) نماز جنازہ صحیح ہوگئی۔ ابو بکر کا یہ کہنا کہ ’’مؤذن کے پیچھے نماز صحیح نہیں‘‘، غلط ہے۔ جب ابو بکر کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی نفسانیت کی وجہ سے غلط مسئلہ بتاتا ہے، وہ امامت کے لائق بھی نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) نماز جنازہ کے سلسلے میں میت کی وصیت پر پابندی ضروری نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳) عوام میں یہ غلط مشہور ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر کوئی نماز جنازہ نہیں پڑھا سکتا۔ امام جمعہ اور امام محلہ اگر ولی سے افضل ہیں تو وہ ولی کی اجازت کے بغیر بھی نماز جنازہ پڑھا سکتے ہیں۔ بلکہ کوئی بھی شخص نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے، اگرچہ ولی نے اجازت نہ دی ہو۔ پھر اگر ولی نماز جنازہ میں شریک ہوگیا تو وہ دوبارہ نماز جنازہ پڑھ بھی نہیں سکتا۔ البتہ جس نے نماز پڑھائی اگر اسے حق تقدم حاصل نہیں تھا، تو ولی دوبارہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۴) ابو بکر کا جو حال سوال سے ظاہر ہوا کہ اس نے ضد میں آکر غلط مسئلہ بتایا، اس کے مطابق نماز جنازہ تو نماز جنازہ وہ کوئی بھی نماز نہیں پڑھا سکتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved