8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید کہتا ہے ہر نماز کے بعد دعاے ثانی ضروری ہے اور دعاے ثانی کے بعد الفاتحہ کہنا بھی ضروری ہے اور کہتا ہے کہ جو الفاتحہ نہ کہے وہ وہابی ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد فاتحہ کس کے نام کی دی جاتی ہے جب کہ شمالی ہند میں الفاتحہ کا دستور ہی نہیں ہے؟ مہاراشٹر کے کچھ علاقوں میں اکثر جہلا اماموں پر مسلط کرتے ہیں نہیں تو وہابی کہہ کر امامت سے ہٹا دیتے ہیں۔

فتاویٰ #1595

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: یہ آپ کا اہل سنت پر الزام ہے کہ وہ دعاے ثانی کو ضروری کہتے ہیں، شاید آپ کے نزدیک جو چیز ضروری نہ ہو اس کا کرنا ناجائز وحرام ہے تو اب ذرا اپنے مولویوں سے پوچھ کے بتائیے کہ مستحب کا کرنا ضروری ہے کہ نہیں اور مستحبات پر عمل کرنا گناہ ہے یا ثواب؟ دعاے ثانی کی بحث بعد میں ہوے گی۔ پنج وقتہ فرائض کے بعد ہاتھ اٹھا کر جو اجتماعی دعا ہوتی ہے اس کے بارے میں آپ اپنے علما سے پوچھ لیجیے کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟ وہ دعاے اول کا جہاں سے ثبوت دیں گے وہیں سے ہم دعاے ثانی کا ثبوت دیں گے ۔ دعاے ثانی کے منکرین کو وہابی کہا تو بالکل صحیح کہا، دعاے ثانی کو ناجائز وحرام کہنا یہ وہابیوں کی علامت ہے۔ صرف وہابی ہی اس کو ناجائز وحرام کہتے ہیں۔ اہل سنت کے عوام وخواص علماو مشائخ ومفتیان عظام اسے جائز ومستحسن مانتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ عز وجل نے ارشاد فرمایا: ’’ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ۰۰۷ ‘‘ جلالین میں اس کی تفسیر یہ ہے۔ فإذا فرغت من الصلاۃ اتعب في الدعا۔ کہ جب نماز سے فارغ ہو جا ؤ تو دعاؤں میں خوب کوشش کرو۔ اور ظاہر ہے کہ نماز سے مکمل فراغت سنن ونوافل کے بعد ہوتی ہے یہ فاتحہ تمام انبیا ے کرام ، صحابہ عظام ، اولیاے امت اور علماے ملت اور تمام مسلمانوں کے لیے پڑھی جاتی ہے کہیں رواج نہ ہونا کسی چیز کے ناجائز ہونےکی دلیل نہیں۔ دعاے ثانی فرض یا واجب نہیں مستحسن ہے اگر دعاے ثانی نہ مانگے تو کوئی گناہ نہیں۔ البتہ اسے ناجائز وحرام سمجھ کر چھوڑنا ضرورگمراہی وبد دینی ہے۔جیسا کہ وہابی کرتے ہیں۔ پھر پوری دنیا کے مسلمانوں کا یہ عمل ہے کہ نوافل سے فارغ ہو کر بھی انفرادی طور پر ضرور دعا مانگتے ہیں۔ ہاں بعض علاقوں میں اجتماعی طور پر نہیں ۔ یہ بھی آپ کا افتراہے کہ دعاے ثانی، جہلا امام پر مسلط کرتےہیں۔ یہ جہاں بھی رائج ہے تمام علما ، مشائخ ، مفتیان کرام ،محدثین سبھی اس پر عمل کرتے ہیں اور اسے مستحسن جانتےہیں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved