8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہمارے یہاں میت کے دفن کرنے کے بعد حال ہی میں اذان دینے کا رواج شروع کیا گیا ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں، نوازش ہوگی۔

فتاویٰ #1541

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: آپ کے یہاں یہ اذان ابھی رائج ہوئی ہے مگر مختلف بلاد اسلامیہ میں بہت پہلے سے رائج ہے حتی کہ علامہ خیر الدین رملی نے حاشیہ بحر میں اس کے مسنون ہونے کا ایک قول نقل فرمایا۔ بلا شبہہ یہ اذان جائز و مستحسن ہے۔ اذان ذکر الہٰی ہے، ذکر الہٰی موجب نزول رحمت اور مسلمان کے لیے انسیت۔ اس تاریک گھر میں یکہ وتن تنہا رہنے والے مسلمان کے لیے انسیت ورحمت کے اسباب کی شدید حاجت۔ امام حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ایک حدیث نقل فرمائی کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ: قبر میں نکیرین جب سوال کرتے ہیں : ’’تیرا رب کون ہے؟‘‘ ہے تو شیطان لعین بہکانے کے لیے وہاں بھی پہنچ جاتا ہے اور اپنی طرف اشارہ کر کے مردے سے کہتا ہے کہ مجھے بتا۔ اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اذان سن کر مقام روحاء تک بھاگتا ہے جو مدینہ طیبہ سے چھتیس میل کے فاصلے پر ہے۔ قبر میں اذان کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ قبر میں اس لعین کی مداخلت نہ ہوگی۔ اذان نماز ہی کے ساتھ خاص نہیں اذان کے علاوہ اور بہت سے موقعوں پر مشروع ہے۔ مثلا پیدائش کے وقت بچے کے کان میں۔ مہموم ، مصروع، غضب ناک کے کان میں، آگ لگنے کے وقت، سخت لڑائی کے وقت، شیطان کے دفعیہ کے لیے۔ آپ تفصیلی دلائل دیکھنا چاہتے ہیں تو مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے رسالے ’’إیذان الأجر ‘‘ کا مطالعہ کریں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved