8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہماری مسجد میں جمعہ کی اذان دوپہر ۱۲:۳۰ بجے دی جاتی ہے۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ دو پہر ۱۲:۳۰ بجے زوال آفتاب کا وقت ہوتا ہے ، اس لیے زوال کے بعد اذان جمعہ دی جانی چاہیے اور اس دوران کوئی بھی نماز نہیں پڑھی جانی چاہیے۔ ایک صاحب نے اکسیر ہدایت ص:۸۶، پر جمعہ کی فضیلت میں بیان فرمایا ہوا یہ اقتباس پیش کیا: دوپہر ڈھلے آتش دوزخ بھڑکائی جاتی ہے مگر جمعہ کے دن نہیں بھڑکاتے۔ اس اقتباس کی روشنی میں دوسرے صاحب کا کہنا ہے کہ زوال آفتاب کے وقت بھی جمعہ کی اذان دی جا سکتی ہے اور نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ مسئلہ کی رو سے جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ #1405

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: اندازہ ہے کہ ساڑھے بارہ بجے آپ کے یہاں بعض موسموں میں ظہر کا وقت نہیں ہوتا ہوگا، طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک جو وقت ہے اس کے نصف کے بعد اگر چہ ایک ہی منٹ بعد سہی ظہر کا وقت شروع ہوتا ہے، اس سے پہلے کسی نماز کا وقت نہیں بلکہ وقت مکروہ ہے جس میں کوئی بھی نماز پڑھنی جائز نہیں، دوپہر سے پہلے وقت مکروہ نصف النہار شرعی سے شروع ہوتا ہے اور نصف النہار حقیقی تک رہتا ہے ۔ صبح صادق سے غروب آفتاب تک جو وقت ہے یہ نہار شرعی ہے اور اس کے نصف کا جو وقت ہے وہ نصف النہار شرعی اور ضحوہ کبری ہے۔ فرض کیجیے کہیں ۶؍ بجے دن نکلتا ہو اور ۶؍ بجے ڈوبتا ہو تو دو پہر میں ٹھیک بارہ بجے نصف النہار حقیقی ہے اور اس کے بعد ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ اب اگر وہاں صبح صادق ۴ (ساڑھے چار) بجے ہوتی ہے تو نہار شرعی ساڑھےتیرہ گھنٹے کا ہوا اس کا نصف سوا گیارہ بجے شروع ہوگا یہ نصف النہار شرعی اور ضحوہ کبری ہے ۔ اس جگہ سوا گیارہ بجے سے بارہ بجے تک وقت مکروہ ہے،(اس وقت) کوئی بھی نماز پڑھنی جائز نہیں نہ جمعہ کو، نہ دوسرے دنوں میں، جس نے یہ کہا کہ دوسرے دنوں میں جائز نہیں صرف جمعہ کو جائز ہے اس نے غلط فتوی دیا جو حدیث کے بھی خلاف ہے اور احناف کے مذہب مفتی بہ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کے بھی خلاف ہے ۔ مسلم شریف وغیرہ میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :’’ثلاث ساعات کان رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- ينہانا أن نصلي فیہن (إلی أن قال) وحین یقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیل الشمس‘‘۔ تین وقتوں میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھنے سے منع فرمایا (یہاں تک فرمایا) اور دوپہر کو یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے۔ اس حدیث میں جمعہ کا استثنا نہیں لہذا یہ جمعہ کو بھی شامل ۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: وکرہ تحریما صلاۃ ولو قضاء مع شروق و استواء و غروب إلا عصر یومہ‘‘۔ استوا کے تحت شامی میں ہے: أو المراد بالنہار ھو النہار الشرعي، وہو من أول طلوع الصبح إلی غروب الشمس وعلی ہذا یکون نصف النہار قبل الزوال بزمان یعتد بہ‘‘۔ جمعہ کے دن وقت زوال نماز نفل کے بارے میں فرمایا کہ یہ خلاف متون وشروح ہے۔(حاشیہ: در مختار میں ہے: کرہ تحریما صلاۃ مطلقا ولو علی جنازہ وسجدۃ تلاوۃ وسہو مع شروق و استواء إلایوم الجمعۃ علی القول الثانی الصحیح المعتمد، کذا فی الأشباہ۔ علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: قولہ: ’’المصحح المعتمد‘‘ اعترض بأن المتون والشروح علی خلافہ۔ [ج:۱، ص:۳۷۲، کتاب الصلاۃ] مشاہدی) اس لیے جمعہ کے دن بھی اس وقت نماز پڑھنی مکروہ تحریمی ہے۔ ہو اللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved