8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید کو فراغت استنجا کے بعد قطرہ آتا ہے مگر فوری صرف استعمال کلوخ سے خروج قطرہ نہیں ہوپاتا ہے جب تک کہ اپنی لنگی ہی میں آلہ کو پکڑ کر مسل نہ دے اور اگر استبرا کرتا ہے تو بعد استبرا پھر بھی ضرورت ہے کہ آلہ کو کسی کپڑے میں مسل دے تاکہ اگر خروج قطرہ ہو تو کپڑے ہی میں جذب ہو جائے اور نماز کے لیے لنگی علاحدہ رکھتا ہے جو نماز پڑھنے کے وقت بدل کر نماز پڑھ لیتا ہے۔ صرف اسبترا سے اگر مکمل طور پر خروج قطرہ ہو جائے تو استبرا سے فائدہ بھی ہوا کہ کوئی بھی قطرہ نکلا اور کلوخ نے جذب کر لیا۔ مگر یہ بھی تو نہیں بعد استبرا آلہ کو کپڑے میں مسلنے سے یا کچھ وقفہ کے بعد بے خیالی میں آلہ کی سپاری پیشاب کی تری آجانے سے اس کے سوا اور کیا بہتر ہو سکتا ہے کہ جس کپڑے میں ہے اسی میں اسی کی تری یا قطرہ کو جذب کر لیا جائے۔ اگر ایسا زندگی میں ایک بار دو بار ہو تو بعدہ پھر استنجا کرنا آسان ہے اور اگر یہ ایک مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے تو استنجا سے فراغت کے بعد پھر استنجا کرتے رہنا وہ بھی نماز میں کم وقت باقی ہے اور دوسرے استنجا کے انتظار میں وقت کو کھودینا اور نماز قضا کر دینا کہاں تک درست ہے۔ آیا زید کا استبرا نہ کر کے لنگی ہی میں قطرات کو جذب کر دینا اور لنگی بدل کر نماز پڑھ لینا از روے شرع درست ہے یا نہیں جب کہ یہ متحقق نہیں کہ بعد استنجا اول قطرہ ضرور آوے یا کبھی نہ آوے ، اور ایسا شخص امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ #1354

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: سائل نے جو تفصیل لکھی ہے اگر صحیح ہے تو وہ لنگی میں پیشاب کے قطرے کو جذب کر سکتا ہے ۔ البتہ یہ خیال ضروری ہے کہ پیشاب مخرج سے اتنے دور تک نہ پھیلا ہو جو ایک درہم کی مقدار ہے، اور اگر اس کا اندیشہ ہو کہ ایک درہم کی مقدار پھیل گیا ہے یا اس سے زائد، تو لنگی میں لے لینے کے بعد پھر پانی سے دھولے۔ واللہ تعالی اعلم(حاشیہ: توضیح وتکمیل : اس استفتا میں تین سوالات قائم کیے گئےہیں: (۱)- لنگی میں استنجا سکھانا۔ (۲)- معذور ہے یا نہیں؟ (۳)- امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟ ہم یہاں سوالات کی اہمیت کے پیش نظر ہر ایک کا حکم ارقام کرتے ہیں۔ الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــ (۱)- کپڑے کو ناپاک کرنا حرام ہے مگر جب وہ کپڑا نماز کے لیے نہیں استبرا کے لیے ہے جو مریض کی ضرورت ہے تو ایک ضرورت ومجبوری کی وجہ سے استبرا کے واسطے مخصوص لنگی میں استبرا کرنا مباح ہے۔ فقہا فرماتے ہیں: ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘۔ استبرا سے مراد یہ ہے کہ استنجا کے بعد کوئی ایسا طریقہ اپنا یا جائے جس سے قطرہ ٹپکنا بند ہو جائے، نیز یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ اب قطرہ نہیں آئے گا جب قطرہ مسلنے ہی سے آتا ہے تو الگ الگ کپڑے وغیرہ کے ٹکڑے بھی اس کے لیے استعمال کر سکتا ہے مگر روزانہ کپڑے وغیرہ کے زیادہ ٹکڑے اکٹھا کرنے پھر پھینکنے سے آسان یہ ہے کہ ایک لنگی ہی اس کام کے لیے خاص کرلی جائے اسی لیے حضرت شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختصار کے ساتھ حکم جواز صادر فرمایا۔ (۲) - زید صورت مسئولہ میں معذور نہیں ہے کیوں کہ مخصوص طور پر استبرا کے بعد اسے قطرہ آنا بند ہوجاتا ہے اور کامل وضو کے ساتھ وہ نمازیں ادا کر تا ہے۔ معذور تو وہ ہوتا ہے جو وضو کے ساتھ ایک فرض نماز بھی ادا نہ کر سکے اور قطرہ آجائے۔ زید کو ہرگز ایسا کوئی عذر لاحق نہیں اس لیے وہ شرعی اصطلاح کے مطابق معذور نہیں قرار پائے گا جس کے احکام عام لوگوں سے کچھ جدا ہوا کرتے ہیں۔ (۳) - یہ تو واضح ہو چکا کہ زید معذور نہیں ، اب اگر وہ قرآن صحیح پڑھتا ہو اور مسائل طہارت ونماز سے بخوبی واقف ہو یعنی قاری وعالم ہو، یا صحیح خواں حافظ ہو تو وہ امامت کا اہل ہے اور اس کی اقتدا میں غیر معذورین کی نمازیں صحیح ودرست ہیں۔ محمد نظام الدین رضوی غفر لہ۔) (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved