8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک چشمہ جاری ہے یعنی ایک چھوٹی سی نہر کے ذریعہ اس کنویں میں پانی آتا ہے، اس کنویں کا قطر بشمولیت ڈیڑھ فٹ کی دیوار ۳۱؍ فٹ ہے اور پانی کی گہرائی ۲۴؍ فٹ ہے اس کنویں میں ایک لڑکا گر کر مر گیا اور فوراً اس کی نعش کو نکالا گیا، نعش کو نکالنے کے بعد سے ہندو و مسلمان اور ہر قوم کے لوگ اس پانی کو استعمال کر رہے ہیں؛ کیوں کہ یہ کنواں سرکاری ہے تقریبا پانی کا استعمال تین ماہ سے ہو رہا ہے، زید کہتا ہے کہ جب تک اس کنویں کا پانی نہیں نکالتے تب تک مسلمان کو یہ پانی استعمال کرنا ناجائز ہے۔ اس پانی سے وضو یا کپڑے وغیرہ صاف کر کے جو نمازیں پڑھی گئیں وہ نمازیں ادانہیں ہوئیں کیوں کہ وہ پانی ناپاک ہے، بکر کہتا ہے کہ جتنا پانی نکالنا تھا اس سے زیادہ پانی نکل چکا ہے۔ اس لیے کہ یہ پانی تین مہینے سے استعمال کر رہے ہیں اب پانی نکالنے کی ضرورت نہیں اگر مسئلے کی باریکیوں کے مطابق عمل کرنا یا چلنا ہے تو اس زمین پر پیر رکھ کر چلنا بھی مشکل ہے۔ (حاشیہ: بکر نے بڑی بے باکی کے ساتھ جو یہ کہا کہ ’’اگر مسئلے کی باریکیوں کے مطابق عمل کرنا، یا چلنا ہے تو اس زمین پر پیر رکھ کر چلنا بھی مشکل ہے‘‘۔ یہ شریعت طاہرہ کے خلاف اور بالکل غلط ہے، دین کے احکام آسان ہیں، اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں ہے: ’’ وَ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ١ؕ ‘‘ [الحج، آیت: ۷۸] اللہ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ نیز قرآن حکیم میں ہے: ’’ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا١ؕ ‘‘ [البقرۃ، آیت: ۲۸۶] اللہ کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا۔ اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: أحب الدین إلی اللہ الحنیفیۃ السمحۃ۔ [صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب الدین یسر] اللہ تعالی کے نزدیک آسان دین بہت پسند ہے۔ لہذا بکر کتاب وسنت کے خلاف بکواس کرنے کی وجہ سے توبہ ورجوع کرے اور آیندہ ہرگز ہرگز ایسی بے باکی نہ کرے۔ واللہ تعالی اعلم ۔ محمد نظام الدین الرضوی) جواب طلب بات یہ ہے کہ زید کا کہنا صحیح ہے یا بکر کا کہنا صحیح ہے؟ اس پانی کا حکم کیا ہے اور پانی کب استعمال کر سکتے ہیں؟ اس کنویں کے پانی کو استعمال کر کے مثلاً وضو ، بدن یا کپڑے صاف کرکے جو نمازیں ادا کی ہیں وہ درست ہیں یا نہیں ؟ اور فاتحہ ونیاز وغیرہ ادا ہوئی یا نہیں؟ نوٹ: اگر شہر میں اس کے علاوہ دوسرا کنواں یا پانی کا انتظام نہیں ہے تو کیا کرنا چاہیے؟

فتاویٰ #1338

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: یقینا لڑکے کے گرکر مرجانے سے یہ کنواں ناپاک ہو گیا تھا اور یہ فرض تھا کہ جس وقت لڑکا گرا تھا اس وقت جتنا پانی کنویں میں تھا سب نکالا جائے خواہ یک بارگی، خواہ رفتہ رفتہ، تھوڑا تھوڑا۔ اب اگر اس وقت تک اتنا پانی نکل چکا جتنا لڑکے کے کنویں میں گرکر مرنے کے وقت تھا تو اب کنواں پاک ہے، اور اگر اس سے کم نکالا ہو تو اب بھی کنواں ناپاک ہے۔ اس کے معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس نہر سے پانی آتا ہے اس کو بند کردیں اور جلدی جلدی چار پانچ آدمی اس کنویں سے پانی کھینچ لیں مثلا سو ڈول، اب دیکھیں کہ سو ڈول کھینچنے پر پانی کتنا کم ہوا فرض کرو کہ سو ڈول نکالنے پر کنویں میں ایک فٹ پانی کم ہوا اور کل پانی دس فٹ ہے تو معلوم ہوا کہ کنویں میں ہزار ڈول پانی ہے اب اگر اس کنویں سے ہزار ڈول پانی نکل گیا تو کنواں پاک ہے کم نکالا ہے تو ناپاک ۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved