8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید نے ایک شب عمر کے مکان پر قیام کیا۔ اس مکان میں زید اور عمر کے سوا کوئی دوسرا نہیں تھا۔ تو زید تنہا مکان میں سویا، عمر کی شیروانی کی جیب میں چالیس روپے جو اسی روز رکھے تھے موجود تھے۔ شیروانی اس مکان میں تھی۔ صبح کو عمر ایک فاتحہ میں چلا گیا، زید بعدِ طلوعِ آفتاب مکان کا قفل بند کر کے عمر کو کنجی دے کر چلا گیا، واپس آیا تو دیکھا تو جیب میں پچیس روپیہ تھا اور پندرہ غائب۔ عمر بھی سچا اور ایمان دار ہے، زید سے جب دریافت کرتا ہے تو وہ انکار کرتا ہے اور صفائی پیش کرتا ہے کہ اگر میں چراتا تو سب روپیہ چراتا۔ صورت مذکورہ میں زید کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے، کیوں کہ زید ایک مسجد کا امام بھی ہے۔ بعض لوگ زید کی اس سرقہ کی شہرت سے آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ ازروے شرع جو حکم ہو مطلع کیا جائے۔

فتاویٰ #1250

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب: اس واقعہ میں عمر مدعی اور زید مدعاعلیہ ہے، لیکن زید انکار کرتا ہے اور عمر کے پاس کوئی گواہ نہیں، چوری کا ثبوت زید کے اقرار سے ہوتا یا عمر کے گواہوں سے، مگر یہ دونوں نہیں، لہٰذا ایسی صورت میں چوری ثابت نہیں ۔ یہ کہنا کہ زید و عمر کے سوا کوئی دوسرا اس مکان میں نہیں آیا، یہ زیادہ سے زیادہ ایک قرینہ ہو سکتا ہے جو چوری کے ثبوت کے لیے کافی نہیں، اسی طرح زید کا کہنا کہ میں چراتا تو سب روپیہ چراتا بریت کی دلیل نہیں، لہٰذا ایسی صورت میں زید پر قسم ہے۔ حدیث میں ہے: البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر . واللہ تعالیٰ اعلم (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved