8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید ایک مجمع کے ساتھ عمر وکے مکان پر پہنچا۔ عمر ونے ان لوگوں کو بیٹھایا اور آنے کا سبب دریافت کیا ۔ مجمع کے ایک شخص نے جواب دیا کہ مسئلہ دریافت کرنا ہے ۔ عمر ونے اجازت دی تو زید نے سوال کیا ، اس کے بعد عمر ونے کتاب دیکھ کر اس کا جواب دیا ۔ زید نے کہا کہ مولانا یہ دوسری بات ہوئی، سوال یہ نہیں ہے۔ زید ہنسنے لگا اور دوبارہ پھرسوال کیا ۔ عمرو نے کہا میں اسی کا جواب دے رہا ہوں ، پوری بات سنیے اور غور کیجیے ۔ زید نے ہنستے ہوئے کہا، اچھا سنائیے۔ عمرو نے عبارت پڑھی اور اس کا ترجمہ کر کے سنایا ۔ زید نے کہا، اس سے کیا ہوا۔ زید کے ہنسنے اور اس کے طرزِ کلام سے استہزاکا ظہور ہونے لگا۔ اب عمرو کو کھٹک پیدا ہوئی کہ کیا بات ہے، شاید یہ سمجھنا نہیں چاہتے بلکہ مذاق کرنا چاہتے ہیں ، لیکن عمرو نے سنبھل کر بتایا کہ آپ کے سوال میں جو اعتراض کا پہلو ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص دوسری جگہ سے آیا ہے اگرچہ اس نے رمضان کا چاند دیکھا نہیں بلکہ دوسروں سے سن کر ایک روز پہلے سے روزہ رکھتا ہے ۔ اگررویت کا ثبوت اور عید یہاں کی تیس کے حساب سے ہوئی تو اس کے۳۱؍روزے ہو جائیں گے ۔ اور اکتیسواں دن اس کے حساب سے عید کا دن ہے اور عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے ، تو میں نے جو عبارت پڑھی ہے اس میں اسی کا جواب ہے کہ ایسی صورت میں اس کو اکتیسویں دن جو اس کے حساب سے عید کا دن ہے اس میں روزہ رکھنا منع نہیں ہے ۔ رہا یہ کہ اس صورت میں اکتیس روزے ہو جائیں گے تو اس میں کچھ حرج نہیں ۔ چناں چہ اس کا ثبوت دوسری عبارت سے مل سکتا ہے ۔ عمرو نے وہ عبارت پڑھی، معاً زید نے کہا کہ میری طرف بار بار سر اٹھا کر کیا دیکھتے ہیں پڑھ کر بتائیے، یہ کہا اور مجمع کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگا ۔ عمرو کو یقین ہو گیا کہ اس کا مقصود صرف مذاق ہے۔ لہذا اس کو خوف ہوا کہ کہیں استہزا بالعلم کے بارِ گناہ سے خود نہ دب جائے۔ کتاب بند کر دی اور کہا، معاف کیجیے آپ کا مقصد مسئلہ دریافت کرنا نہیں بلکہ مذاق کرنا ہے ۔ زید نے کہا، یہ خیال غلط ہے ۔ مجمع کے ایک آدمی نے زید سے خطاب کرتے ہوئے کہا تو پھر آپ بار بار ہنستے کیوں ہیں ؟ آپ کے طرزِ کلام سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ صرف مذاق مقصود ہے ۔ زید نے عمرو سے کہا، آپ کو بتانا ہوگا، ہم مذاق کرنے نہیں آئے ہیں ۔ عمرو نے کہا، نا اہل کو علم سکھانا خنزیر کے گلے میں جواہر کا ہار ڈالنا ہے ۔ تو اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ شرعاً عمرو کا یہ قول کیسا ہے؟ اور زید کا مذکورہ بالا طریق پر سوال کرنا عند الشرع کیسا ہے ۔ ان دونوں پر شریعت کیا حکم لگاتی ہے ؟بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1201

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: مسائلِ شرعیہ اللہ عز و جل کے احکام ہیں اور اس کے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ہیں کہ حقیقۃً وہ بھی احکامِ الٰہی ہیں ۔ ارشادِ باری ہے : وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ وہ نبی اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ، وہ جو فرماتےہیں وحیِ الٰہی ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہ۔ جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ عز و جل کی اطاعت کی ۔ علماے دین انھیں احکامِ الٰہی کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ اس لیے نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: العلماء ورثۃ الانبیاء۔ علماے دین انبیا ﷩کے وارث و نائب ہیں ۔ اور ارشاد فرمایا: علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل۔ میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا کے مثل ہیں ۔ اس لیے ارشادِ خدا وندی ہے: اَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَ اُوْلِی اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔ اولی الامر میں علما بھی شامل ہیں ۔ اسی آیت کے تحت تفسیرِ احمدی شریف میں ہے: والحق إن المرادبہ کل أولی الحکم اماما کان أو أمیرا، سلطاناً کان أو حاکما، عالما کان أو مجتہداً ، قاضیاً کان أو مفتیاً۔ یعنی اگرچہ اولی الامر کی تفسیر میں اقوال مختلف ہیں مگر حق یہ ہے کہ مراد اس سے ہر صاحبِ حکم ہے ، امام ہو یا امیر، بادشاہ ہو یا حاکم، عالم ہو یا مجتہد، قاضی ہو یا مفتی۔ آیتِ پاک اور احادیثِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ علماے دین نائبِ رسول ہیں ، ان کی اطاعت واجب ہے ۔ علماے دین جب کہ نائبِ رسول ہیں اور اللہ عز و جل نے ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے تو اس کو لازم ہے کہ علما کا ادب و احترام، ان کی تعظیم و توقیر ضروری قرار دی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ علما کو رسول کا نائب بنایا جائے اور ان کی اطاعت واجب کی جائے اور ان کی تعظیم و توقیر کا حکم نہ دیا جائے۔ اس لیے علماے دین کا تمسخر و استہزا بہ حیثیت علمِ دین کے کفر ہے۔ مجمع الانہر میں ہے: والإستخفاف بالأشراف والعلماء کفر۔ بادشاہِ اسلام، قاضی وغیرہ اور علماے دین کا استہزا کفر ہے۔العیاذ باللہ۔ مجلسِ علم میں زید کا ہنسنا سخت بے ادبی ہے اور عمرو کے سمجھانے اور یہ کہنے پر کہ پوری بات سنیے، پھر زید کا ہنسنا اور ہنستے ہوئے کہنا اچھا سنائیے، یہ مزید بے ادبی ہے ۔ پھر مسئلہ سمجھانے اور کتاب کی عبارت سنانے پر زید کا عمرو عالمِ دین سے یہ کہنا کہ میری طرف بار بار سر اٹھا کر کیا دیکھتے ہیں ، پڑھ کر بتائیے، اور یہ کہہ کر مجمع کی طرف دیکھ کر ہنسنا ضرور تمسخر اور مذاق کرنا ہے ، جس کا احساس ہجوم کے بعض اشخاص نے کیا اور زید سے کہہ دیا کہ آپ کے طرزِ کلام سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مذاق مقصود ہے ۔ ایسی حالت میں عمرو کا کتاب بند کر دینا اور زید کو جواب نہ دینا بالکل حق بہ جانب ہے ، کیوں کہ سائل کے مذاق اور استہزا کا احساس کرتے ہوئے مسئلہ کا جواب دینا اس کے مذاق میں شریک ہونا ہے اور مجیب کو بھی اسی جرم کا مرتکب بننا ہے جس جرم کا مرتکب سائل ہے ۔ عالم گیری میں ہے: رجل یجلس علی مکان مرتفع ویسئلون منہ مسائل بطریق الإستہزاء ثم یضربونہ بالوسائد وھم یضحکون یکفرون جمیعا و کذا لولم یجلس علی المکان المرتفع۔ ایک شخص اونچی جگہ پر بیٹھا ہے، لوگ اس سے بہ طریق استہزا مسائل دریافت کر رہے ہیں اور اس کو تکیہ سے مار رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں ، ایسی صورت میں سب کے سب کافر ہیں ۔ اگر اونچی جگہ نہ بیٹھا ہو تب بھی یہی حکم ہے۔ انتہی۔ خدا نخواستہ اگر عمرو بھی زید کی طرح ہنس ہنس کر جواب دیتا رہتااور مجمع بھی زید کی طرح تمسخر میں شریک ہو جاتا تو عالمگیری کا پورا جزئیہ زید و عمرو کے ساتھ مجمع پر صادق آتا ۔ العیاذ باللہ۔ اس لیے عمرو نے احتیاط برتی اور کتاب بند کر دی اور مسئلہ کا جواب دینے سے سکوت کیا ۔ جب کہ زید کی بار بار کی ہنسی اور طرزِ کلام وغیرہ سے ثابت ہے کہ زید نے استہزا کیا اور اس کا مقصد مذاق تھا ، جیسا کہ مجمع کے بعض اشخاص نے زید سے کہہ بھی دیا تو ایسی صورت میں زید کا یہ قول کہ ہم مذاق کرنے نہیں آئے ہیں ، غلط ہے ۔ مسئلۂ شرعی دریافت کرنے میں عالمِ دین کا مذاق اور تمسخر کرنے والا یقینا نا اہل ہے ۔ عمرو کا یہ قول کہ نا اہل کو علمِ دین سکھانا خنزیر کے گلے میں جواہر کا ہار ڈالنا ہے ۔ یہ اس حدیث کا ترجمہ ہے جو ابن ماجہ اور مشکوٰۃ شریف میں مذکور ہے اور زید نے اپنے قول و فعل سے اسی مجلس میں اپنے کو نا اہل ثابت کر دیا اور باوجود اس کے عمرو سے مطالبہ کیا اور کہا کہ آپ کو بتانا ہوگا ، اس لیے عمرو نے اپنے سکوت کی دلیل میں یہ حدیث پیش کی ، اگرچہ اس موقع پر اس حدیث کے پیش کرنے سے عمرو کا غضب و غصہ ظاہر ہوتا ہے ، لیکن شرعی قباحت دیکھ کر غضب کرنا مقتضاے ایمان ہے ، عالمِ دین کی یہی شان ہے۔ نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم باوجودے کہ رحمۃ للعالمین ہیں مگر شرعی قباحت دیکھ کر اتنا غضب فرماتے تھے کہ آثارِ غضب چہرۂ انور سے آشکارا ہوتے تھے ۔ اس قسم کے واقعات احادیثِ کریمہ میں بہ کثرت آئے ہیں ۔ امام بخاری ﷫ نے صحیح بخاری شریف کتاب العلم میں باب مقرر کیا ہے ’’باب الغضب فی الموعظۃ و التعلیم اذا رایٔ ما یکرہ‘‘ یعنی یہ باب وعظ اور تعلیم میں غضب کرنے کے بارے میں ہے ، جب کہ واعظ اور عالم مکروہ چیز دیکھے ۔ اس باب میں تین حدیثیں ذکر کی ہیں ۔ بہ قدرِ ضرورت نقل کرتا ہوں ۔ پہلی حدیث میں ہے: فما رأیت النبي صلی اللہ علیہ وسلم فی موعظۃ اشدَّ غضباً من یومئذ۔ راویِ حدیث فرماتے ہیں کہ میں نے کسی وعظ میں حضور ﷺ کو اس روز سے زیادہ غضب فرماتے ہوئے نہ دیکھا۔ دوسری حدیث میں ہے: فغضب حتیٰ أحمرَّت و جنتاہ ۔ پس حضور نے غضب فرمایا، یہاں تک کہ آپ کے رخسارِ مبارک سرخ ہو گئے ۔ تیسری حدیث میں ہے: فلما رأي عمر ما في وجہہ قال یا رسول اللہ: أنا نتوب إلی اللہ عز و جل۔ جب حضرت عمر نے حضور اقدس ﷺ کے چہرۂ انور میں آثار غضب دیکھے تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم اللہ عز و جل سے توبہ کرتے ہیں ۔ تینوں حدیثوں سے ثابت ہے کہ وعظ فرماتے ہوئے اور تعلیم دیتے ہوئے جب حضور کوئی مکروہ چیز دیکھتے تو اتنا غضب فرماتے کہ آثار جلال چہرۂ انور سے ظاہر ہوتے اور حضرت عمر جیسے اَجِلَّۂ صحابہ لرزتے اور توبہ کرتے تھے۔ ان احادیث کریمہ سے امام بخاری نے یہ مسئلہ ثابت کیا کہ واعظ اور عالم جب وعظ اور تعلیم میں کوئی قبیح چیز دیکھے تو اسے غضب کرنے کا حق ہے اور ایسے موقع پر غضب کرنا بھی نبیِ کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی سنت ہے ۔ لہذا زید کے استہزا کو دیکھ کر عمرو کا غضب کرنا حق ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ صورتِ مستفسرہ میں عمرو حق بہ جانب ہے ، عالمِ دین اور محتاط عالم ہے ۔ زید خطاکار ہے اور زید کو اپنے اس طرز وطریق سے توبہ لازم ہے ۔ و ھو تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved