8 September, 2024


دارالاِفتاء


در مسئلہ قربانی گاے موجودہ دورزلازل و پرفتن میں کہ ہمارے ضلع کے مواضعات نیز شہر میں مسلمان بہت کم تعداد میں پہلے ہی سے تھے ، پھر ملازمین پاکستان گئے اور کچھ ہجرت بھی کر رہے ہیں نیز کثیر تعداد میں ہندو اور سکھوں کی آمد ہے۔ اہل ہنود مواضعات نیز شہر میں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر گاے کی قربانی کی تو ہم جنگ کریں گے ۔ ہمارے شہر باندہ میں ایک محلہ بنگالی پورہ ہے جو شہر سے باہر اسٹیشن پار ہے جس میں ہندوؤں کی اکثریت ہے ، صرف چار پانچ گھر مسلمانوں کے ہیں ۔ وہاں گائے کی قربانی ہوتی چلی آئی ہے، اب زبردست خطرہ ہے۔ اگر اس محلہ میں چڑھائی کی تو ان کو روکنے والا بھی بجز خداکے نہیں ،نہ ان کی فریاد کی آواز شہر تک پہنچ سکتی ہے، نہ شہر والوں سے اپنی اقلیت کی بنا پرامداد کی امید ہے ۔ بجز اپنے تحفظ کے اور اب حکومت بھی ہندوؤں کی ہے ۔ حاکم حکام پولیس سب ان کے ، کہیں بھی داد رسی کی امید نہیں ۔ ایسی صورت میں ہندوستان غالباً دار الحرب کے حکم میں آجائے گا۔ ان وجوہات کو مد نظررکھتے ہوئے جب کہ قربانی بکرے کی بھی ہو سکتی ہے تو کیا گاے کی قربانی فرض ہے ، بغیر اس کے قربانی نہ ہوگی، جان کا زبردست خطرہ ہے۔ یہ مستحب فعل غالباً ہوسکتا ہے مگر جان کا بچانا فرض ہے ۔ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ. گاے کی قربانی کے سلسلے میں اب کیا حکم ہے ، نیز دیگر محلہ جات کے لیے اسی طرح کیا حکم ہے اور محرم پر تعزیہ داری میں بھی زبردست خطر ہ ہے ۔ اگر امسال مصلحتاً نہ کیا جائے تو کیا حرج ہے ۔ اس حکومت کی اور آئندہ ہم کو فلاح اور قوت اور اجازت عام کا امکان بھی ہے ۔ صحابۂ کرام نے بھی مصلحتاً فرائض اور اصولی چیزوں کو خفیہ کیا تو اب ہمارے لیے کیا حکم ہے ۔ علی الخصوص بنگالی پورہ اور ان مواضعات کے لیے جہاں دو چار ہی گھر مسلمانوں کے ہیں۔ یوں ہی وہ موضع جو چاروں طرف سے ہندو مواضعات سے گھرا ہو تعزیہ داری اور قربانی گاے کے لیے کیا حکم ہے ۔ بینوا بالکتاب توجروا یوم الحساب۔

فتاویٰ #1187

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: قربانی ِگاؤ شعار اسلام ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ . اونٹ اور گاے کو اللہ نے دین کے لیے شعار قرار دیا ۔ ایسی صورت میں جب قربانی گاؤ کی ممانعت کی جا رہی ہو، اس کا کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔ مگر جب کہ حالات ایسے ہیں جن کا ذکر سوال میں کیا گیا اور مسلمان وہاں کے بالکل بے کس اور بے بس ہیں اور اس کے جاری رکھنے میں واقعی اور صحیح طور پر اپنی جانوں کا خطرہ جانتے ہوں تو ان کو اجازت ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کریں ۔ رہی تعزیہ داری تو وہ نہ کوئی اسلامی چیز ہے ، نہ اس کے کرنے کا کوئی شرعی حکم ہے ۔ اس کو تو ہمیشہ سے علماے کرام بدعت و ممنوع بتاتے رہے ہیں ۔ اب بھی وہی حکمِ شرع ہے کہ یہ ممنوع ہے ، اس سے باز آجانا چاہیے۔ و اللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved