8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید اور زوجۂ زید میں کسی لا یعنی بات پر گفت و شنیدبڑھی، یہاں تک کہ زید نے طیش میں آکر ہندہ سے کہا کہ ہم تمھیں طلاق دیا۔ اس کے بعد زید لیٹ گیا۔ ہندہ نے اپنی بک بک جاری رکھی۔ اس بنا پر زید نے جھنجھلا کر کہا کہ اب کیا بک بک کرتی ہے ، ہم تو تمھیں چھوڑ دیا۔ بعد ازاں ہندہ نے اپنی ماں کو بلایا۔ ماں نے آکر جب سناکہ طلاق دیا ہے، والدۂ ہندہ واپس چلی گئیں ۔ اور دو آدمیوں کو بھیجا، ان دو آدمیوں نے آکر پوچھا کیا معاملہ ہے؟ تو زید نے کہا ہاں ان کو چھوڑ دیا ہے اور لے جاؤ، تو ان دونوں نے کہا کہ تین دفعہ طلاق دیا ہے، زید نے کہا کہ ہاں ۔ تو وہ آدمی لے کر چلے گئے ۔ اس کے بعد مولوی صاحب سے پوچھا کہ ہم اپنی بیوی کو چھوڑ دیاہے ،اب اس کو رکھ سکتے ہیں ، تو کہنے لگے کہ نہیں ۔ دوسرے مولوی صاحب کے پاس گئے تو انھوں نے کہا جس سے بھی تم نے کہا ہے کہ ہم نے چھوڑ دیا وہ طلاق میں شمار کیا جائے گا۔ عمرو یہ کہتا ہے کہ ’’ہم نے چھوڑ دیاہے‘‘کھلا اقرار اس کو اپنے فعل کا ہے ، کیا کسی جرم کے اقرار کو جرمِ ثانی قرار دینا جہالت ہے؟ لہٰذا از روے شرع شریف جواب دیا جائے ۔

فتاویٰ #1135

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: زید کا ہندہ سے یہ کہنا کہ ہم تو تمھیں چھوڑ دیا اور پھر ان دو آدمیوں سے جو ہندہ کو لینے آئے تھے یہ کہنا کہ ’’ہاں ان کو چھوڑ دیا ہے‘‘ ان دونوں میں دو احتمال ہیں ، ایک اخبار یعنی پہلے طلاق کا اعادہ اور دوسرا انشا یعنی پہلے طلاق کے علاوہ دوسری جدید طلاق دینا ۔ اگر دونوں جگہ اخبار مراد ہے تو ایک طلاق ہوئی اور اگر انشا مراد ہے تو تین طلاقیں ہوئیں ۔ زید نے پہلا قول جو ہندہ سے کہا ہے اس میں اخبار و انشا دونوں مساوی معلوم ہوتے ہیں البتہ قولِ ثانی میں ظاہر اخبار ہے ۔ ان دونوں قولوں کی توجیہ یہ ہوئی ۔ پھر جب کہ ان دونوں آدمیوں نے زید سے دریافت کیا ’’تین دفعہ طلاق دیا ہے؟‘‘تو زید نے جواب میں کہا ’’ہاں ‘‘تو تین طلاق کا اقرار ہے ، اس لیے تین طلاقیں ہوئیں اور اس جواب سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں قول میں انشا مراد لیا ہے ۔ اور اگر ان دو جگہوں پر اخبار مراد لیا ہو تو یہ جواب ہی تین طلاق کے لیے کافی ہے ۔ مثلاً کسی نے دوسرے سے کہا ’’تم نے اپنی بیوی کو طلاق دیا“ اور جواب میں ہاں کہے تو طلاق پڑ جاتی ہے ۔ یوں ہی جب کہ تین طلاق کے سوال کے جواب میں ہاں کہے تو تین طلاقیں پڑ جائیں گی۔ در مختار میں ہے : ولو قیل لہ طلقت امراتک؟ فقال نعم او بلی بالھجاء طلقت۔ اور زید کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے یہ جواب تین طلاق کی تصدیق کے لیے دیا ہے، انکار کے لیے نہیں ۔ لہٰذا ہندہ پر تین طلاقیں مغلظہ پڑ گئیں اور زید پر ہندہ حرام ہو گئی، بغیر حلالہ کے نکاح جائز نہیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved