22 November, 2024


دارالاِفتاء


عبد المعید نے بطور مذاق یہ خبر اڑائی عبد اللطیف سے کہا کہ’’ حمید اللہ نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا ہے‘‘ تو عبد اللطیف نے جواب دیا کہ تمہارا کوئی اعتبار نہیں تو عبد المعید نے کہا کہ حمید اللہ سے پوچھ لو! عبد اللطیف نے حمید اللہ سے پوچھا تو حمید اللہ نے صرف سر کو ہلایا اور کوئی جواب نہیں دیا پھر عبد اللطیف نے پوچھا تب حمید اللہ نے تو سرہلایا اور ’’ ہاں ‘‘ کہا اور ہاں کہنا زوج حمید اللہ کی طرف سے پایا گیا اور لفظ ’’ چھوڑنا‘‘ دوسری جانب سے پایا گیا اور حمید اللہ کی طرف سے ’’ ہاں ‘‘ اور یہ لفظ کنائی ہے اور کنائی میں نیت ضروری ہے اور حمید اللہ کی نیت طلاق کی نہ تھی۔ اتنا کہہ کر حمید اللہ و عبد المعید چلے گئے۔ اس کے بعد عبد المعید دوبارہ لوٹ کر تنہا آیا ،اس درمیان میں عبد اللطیف اور محمد بشیر موجود تھے ایک ہی جگہ۔ پھر وہی بات عبد المعید نے لوٹائی جو عبد اللطیف سے کہا تھا محمد بشیر سے کہا اور یہ زیادہ کر کے اور کہا تین کاغذ لکھا گیا تو بشیر نے کہا تین کاغذ لکھنے کی کیا ضرورت تھی تمہارا کوئی اعتبار نہیں عبد المعید قسم کھا کر کہنے لگا کہ یٰس نے مجھ کو بلایا تھا جب میں گیا تو لڑکی کے والد موجود تھے تو میرے اور لڑکی کے والد کے سامنے یٰس نے تین کاغذ لکھا اور یٰس کو جذبہ آگیا اور حمید اللہ سے کہا کہ ایک سو تیس روپیہ اپنی چچی سے مانگ لاؤ، حمید اللہ گیا اور روپیہ لاکر یٰس کو دیا اور یٰس نے لڑکی کے والد کو دیا اس نے لینے سے انکار کیا اور کہا کل ہم مقبول کو لیکر آئیں گے تو روپیہ لے جائیں گے یہ بیان عبد اللطیف کے گھر پر عبد المعید نے آ کر دیا تھا۔ بعد میں حمید اللہ آیا اس کے بعد فیض اللہ آیا اور بشیر پہلے سے موجود تھے ، اس جگہ بشیر نے حمید اللہ سے پوچھا کہ تو نے چھوڑ دیا یہ لفظ صرف بشیر نے کہا تو حمید اللہ نے کہا کہ چھڑا نے میں پڑگیا بشیر اور فیض اللہ نے یہ لفظ سنا اور عبد اللطیف نے سنا کہ چھڑانے پڑے تو بشیر نے حمید اللہ سے پوچھا ایک کہ تینوں تو حمید اللہ نے کہا ہاں صرف ہاں کہا توفیض اللہ نے دوسرے روزیٰس سے پوچھا کہ یہ واقعہ صحیح ہے یا کہ غلط تو یٰس نے بحلف کہا کہ میں کچھ نہیں جانتا پھر ایک شبہ میں یٰس نے محمد بشیر و فیض اللہ و عبد اللطیف وحمید اللہ و عبد الرؤف عبد الاحد ، عبد المعید اور مولوی عبد الحنان وغیرہ کو جمع کیا اپنی صفائی کیا کہ میں کچھ نہیں جانتا تو پھر یہ الزام میرے اوپر کیوں لگایا گیا تو عبد الاحد نے عبد المعید سے پوچھا کہ یہ بات تم نے کیوں کہی عبد المعید نے جواب دیا کہ حمید اللہ نے کہا تھا اور حمید اللہ نے کہا کہ میں کچھ نہیں جانتا اور نہ میں نے کچھ کہا ہے اس پر عبد الاحد نے عبد الحمید سے کہا کہ ایسی بیہودہ بات کبھی نہ کرنا تمہاری بہت شکایت ہوتی ہے ۔ تمہارا فعل برا ہے خبر دار ایسا کبھی نہ کرنا اس پر عبد المعید شرمندہ ہوا اور متصل شاہد فیض اللہ ، محمد بشیر اور عبد اللطیف نہیں ۔ آیا طلاق ہوئی یا نہیں اگر طلاق ہوئی کون رجعی۔ یابائن یا مغلظہ؟ بینوا بالکتاب و توجروا بالحساب

فتاویٰ #1109

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: عبد المعید نے محض جھوٹی خبر اڑادی اور حقیقت میں حمید اللہ نے طلاق نہیں دی تو اب عبد اللطیف کے جواب میں ’’ ہاں ‘‘ کہنے سے ایک طلاق رجعی ہوگئی، کیوں کہ لفظ چھوڑنا باب طلاق میں صریح ہے۔ ( جیسا کہ بہار شریعت باب طلاق میں ہے )۔ اور صریح کی تصدیق ہاں سے کی ہے ، لہٰذا طلاق رجعی ہوگئی۔ در مختار میں ہے : و لو قیل لہ طلقت امرأتک؟ فقال نعم او بلی طلقت واحدۃ رجعیۃ۔ رد المحتار میں ہے : قولہ طلقت اي بلانیۃ۔ اور اگر حقیقت میں حمید اللہ نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی ہے اور عبد اللطیف کے جواب میں ہاں کہہ کر اپنی دی ہوئی طلاق کی صرف تصدیق کرنا مقصود ہے تو اس سے صرف اتنا معلوم ہوگا کہ طلاق دینے کا واقعہ جس کی اطلاع عبد اللہ نے دی تھی صحیح ہے اور اس صورت میں اس کی تفصیل معلوم ہونی چاہیے کہ حمید اللہ نے کن الفاظ سے طلاق دی، اس کے معلوم ہونے کے بعد ہی طلاق رجعی یا بائن ہونے کا حکم دیا جاسکتا ہے ۔ محمد بشیر کا حمید اللہ سے یہ سوال کہ ایک یا تینوں اور حمید اللہ کا جواب’’ ہاں ‘‘ اس سے صاف طور پر معلوم نہیں ہو پاتا کہ ایک کی تصدیق کرتا ہے یا تینوں کی جس پر کوئی حکم دیا جائے البتہ طلاق دینے کی تصدیق ہوتی ہے ۔ بہر حال تفصیل آنے کے بعد ہی طلاق کے رجعی یا بائن ہونے کا حکم ہوگا مذکورہ بالا سوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کاغذ کے لکھانے والا واقعہ غلط ہے اور جہاں تک عبد اللطیف اور محمد بشیر اور حمید اللہ کے درمیان سوال و جواب کا تعلق ہے یہ صحیح ہے اس بنا پر یہ جواب ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved