8 September, 2024


دارالاِفتاء


عرض یہ ہے کہ میری شادی جمن ولیدین ولد رمضان ساکن جگمل پور پرگنہ سگڑی سے عرصہ بارہ سال کا ہوا کہ ہوئی ۔رات کو نکا ح ہوا اور اسی صبح کو میرے بھائی وغیرہ اور بارات و میرے سسراور شوہر وغیرہ سے تکرار ہوگئی اور ہم لوگوں کے اور ان لوگوں کے تعلقات اسی وقت سے خراب ہوگئے۔ میرا شوہر اسی وقت مجھ کو جواب دینے کو تیار تھا کسی طرح مان گیا اور اسی وقت یعنی عرصہ ۱۲؍سال کا ہوا کہ میرا شوہر ممبئی چلا گیا، تعلقات زن و شوہر سے سائلہ اب تک محروم ہے۔ میرا شوہر ممبئی میں جاکر موالی اور غنڈئی کرنے لگا اور اس طرح اپنی عمر جیل خانہ اور غنڈئی میں گزار رہا ہے اور میری کسی طرح سے خبر ۱۲؍سال سے نہیں لیا نہ خرچہ اور نہ کبھی کوئی خط وغیرہ بھیجا۔ سائلہ کا بھائی عبدالشکور مجبور ہوکر پارسال ممبئی گیا اور میرے شوہر سے ملا اور میرے متعلق سوال کیا کہ میری بہن کا کیسے گزارہ ہوگا اس کو لاکر رکھو اور گزر کرو ۔اس نے جواب دیا میں اس کو یہاں نہیں رکھ سکتا اور مجھ کو ملک جانا نہیں ہے، تو میں کیسے گزارہ کرسکتا ہوں، مجھ سے جواب لے لو۔ میرے بھائی نے کہا تحریری جواب دے دو ملک میں دکھانے کے لیے، تو اس نے کہا تم بیٹھے رہو ہم طلاق نامہ تحریر کرنے کے لیے آدمی بلالائیں۔اس درمیان کسی نے خبر اڑادی کہ ولید ین بدمعاشوں کو لینے گیا ہے تم کو مارے گا۔میرا بھائی جان بچا کر بھاگ آیا ورنہ اس کو ہلاک کر ڈالتا ۔میری سسرال میں میرے شوہر کے ماں باپ اور بھائی ہیں، وہ لوگ سائلہ کو ایک مرتبہ ۱۵؍دن اور دوسری مرتبہ ایک ماہ اور تیسری مرتبہ ڈیرھ ماہ تک اپنے یہاں رکھے لیکن زمانہ چار سال کا ہوا وہ لوگ بھی مجھ کو میرے بھائی کے حوالے کر کے جواب دے گئے کہ میرا لڑکا موالی و غنڈہ ہوگیا ہے وہ کسی طرح نہ یہاں آنے کو تیار ہے اور نہ اس کو لے جانے کو تیار ہے تو ہم لوگ کس پر اور کیسے رکھیں؟ اب میری استدعا ہے کہ علماے دین ا ور مفتیان شرع میرے لیے کیا اجازت دیتے ہیں کہ بوجوہات بالا میرا نکاح قائم ہے؟ یاایسی صورت میں کہ میراشوہر نہ لے جاتا ہے اور نہ جواب دیتا ہے تو اگر میں دوسرا نکاح کرنا چاہوں تو کر سکتی ہوں یا نہیں ؟ یا شرع میرے لیے جواجازت دے میرے حق میں تحریر فرمائی جاوے۔ میں صاحب داد خان ساکن شاہ گڑھ تصدیق کرتا ہوں کہ مسماۃ شفیقن او راس کی ماں کے سامنے جیسا کہ ان لوگوں نے بیان میں کہا تحریر کیا گیا، واقعات مندرجہ بالا بالکل صحیح اور سچ ہیں ۔مناسب فتویٰ دیا جائے۔

فتاویٰ #1048

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: نکاح ہو جانے کے بعد جب تک کہ شوہر طلاق نہ دے یا مر نہ جائے اس وقت تک نکاح باقی رہتا ہے لہٰذا جبکہ سائلہ کا شوہر زندہ ہے اور طلاق نہیں دی تو اس کا نکاح باقی ہے۔ ایسی صورت میں دوسرا نکاح ہرگز جائز نہیں ہوسکتا ۔ سائلہ کے بھائی سے جب کہ اس کے شوہر نے کہا تھا کہ مجھ سے جواب لے لو تو زبانی ہی طلاق لے لینا چاہیے تھا ،زبانی طلاق کافی تھی، تحریر کی ضرورت نہ تھی ۔اب پھر وہ اگر کسی طرح زبانی ہی طلاق دے دے خواہ کسی دباؤسے کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ،تو طلاق ہو جائے گی۔غنڈوں سے زبانی طلاق لے لینا بہت آسان ہے ۔ان ہی جیسوں سے مل کر صرف یہ کہلادینا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی خواہ جس طرح بھی ہو جس حالت میں بھی ہو طلاق ہو جائے گی۔ اگر زن و شوہر کے تعلقات نہیں ہوئے یعنی نہ صحبت ہوئی نہ خلوت صحیحہ تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ طلاق کے بعد عدت کی ضرورت نہیں فورًا دوسرے شخص سے نکاح ہو سکتا ہے لیکن جب تک وہ طلاق نہ دے دوسرا نکاح نہیں ہوسکتا۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved