8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایک جماعت احناف کی جو اذانِ خطبہ کو خارجِ مسجد کہلانے سے منع نہیں کرتی ہے اور منبر کے پاس سے کرنے پر اقرار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ حضرت امام اعظم کا یہی مذہب ہے، لہٰذا جماعتِ مذکور کا منع کرنا اور اقرار کرنا موافقِ سنت اور مذہبِ حضرت امام اعظم ہے یا نہیں اور جماعتِ مذکورہ اہلِ سنت ہے یا نہیں؟ حضور ﷺ کے زمانۂ اقدس میں اور خلفاے راشدین کے زمانے میں اذانِ خطبہ کہاں سے ہوتی تھی اور اذانِ خطبہ کے بارے میں ہمارے فقہاے کرام کا کیا مسلک ہے؟

فتاویٰ #1040

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: مسجد خانۂ خدا ہے ، دربارِ الٰہی ہے، باادشاہ اور حاکم کے دربار کی حاضری کا بلاوا دربار کے باہر ہی ہوتا ہے، زور سے پکارنا بے ادبی ہے، اسی لیے اذان مسجد کے باہر مشروع ہوئی۔ اذانِ ثانی ہو یا اول، جمعہ کی ہو یا دوسرے اوقات کی، ہر اذان مسجد کے اندر مکروہ ہے۔ فتاویٰ عالم گیری، قاضی خان، بحر الرائق وغیرہی کتبِ حنفیہ میں ہے: ”یکرہ أن یؤذن في المسجد.“ یعنی مسجد میں اذان مکروہ ہے۔ جمعہ کی اذانِ ثانی جو جمعہ کے وقت ہوتی ہے وہ بھی اذان ہی ہے، لہٰذا وہ بھی مسجد کے اندر مکروہ ہے، احناف کا یہی مسلک ہے۔ اس کی کراہت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اذان ہے اور اذان مسجد کے اندر مکروہ ہے، لہٰذا یہ اذان بھی مسجد کے اندر مکروہ ہے۔ دوسرہ وجہِ کراہت یہ ہے کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم اور خلفاے راشدین کی سنتِ کریمہ کے خلاف ہے، لہٰذا مکروہ ہوئی۔ حضرت سائب بن یزید کی حدیث ہے: ”عن سائب بن یزید رضي اللہ تعالیٰ عنہ ، قال کان یؤذن بین یدی رسول اللہ ﷺ إذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علیٰ باب المسجد و أبي بکر و عمر.“ (أبو داؤد شریف) یعنی جب رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابو بکر اور عمر کے زمانے میں تھا۔ اس حدیث میں حضور اقدس ﷺ اور شیخین کے زمانۂ اقدس میں اذانِ ثانی کا مسجد سے خارج ہونا ثابت ہے اور کوئی روایت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کے عہدِ پاک میں اذانِ ثانی مسجد کے اندر ہوئی ہو، لہٰذا ان حضرات کے دَور میں بھی قدیم طریقہ پر ہی مانی جائے گی اور یہی ثابت ہوگا کہ پوری خلافتِ راشدہ میں اذانِ ثانی مسجد سے خارج ہی ہوتی رہی، لہٰذا اس کے خلاف اندرونِ مسجد ہونا بلا شبہہ مکروہ ہوگا۔ اس حدیث میں حضورِ اقدس ﷺ اور شیخین کے زمانہ کی تخصیص اذانِ اول کے اعتبار سے ہے، یعنی اذانِ اول حضرت عمر کے زمانہ تک نہ تھی، بلکہ دورِ عثمانی میں ہوئی ، اور یہ اذانِ اول مسجد سے باہر مقامِ زورا پر ہوتی تھی۔ وہ اذان جو حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی، اس میں کسی قسم کا کوئی تغیر حضرت عثمان غنی سے ثابت نہیں لہٰذا وہ اپنی حالت پر رہی، بغیر ثبوت اس کو مسجد کے اندر سمجھنا اور حضرت عثمان غنی کی طرف اس کی نسبت کرنا یہ حضرت عثمان غنی پر افترا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ لحاظ ہے کہ حضرت عثمان غنی نے جب مسلمانوں میں سستی دیکھی تو ضرورۃً اذانِ اول کا اضافہ کیا، اس اضافہ سے وہ ضرورت ختم ہو گئی۔ اذانِ ثانی کو حضور اقدس ﷺ کی سنت کے خلاف مسجد کے اندر لانے کی کون سی ضرورت پیش آئی تھی، بلکہ ضرورت تو اس کو بحالہ مسجد کے باہر ہی رکھنا چاہتی ہے، مسلمانوں میں سستی اس کی داعی ہے۔ سوال کے ساتھ ایک اشتہار بھی ہے ، جس کی سرخی ہے”جمعہ کی اذانِ ثانی کے متعلق شرعی فتویٰ“۔ اس میں اذانِ ثانی کو مسجد کے اندر منبر کے پاس ہونا حضرت امام اعظم کا مذہب بتایا ہے۔ ان مفتیوں نے کفایہ کی اس عبارت سے استدلال کیا ہے: ”روی الحسن عن أبي حنیفۃ رحمہ اللہان المعتبر في وجوب السعی و حرمۃ البیع الأذان علی الضارۃ لانہ لا انتظر الأذان عند المنبر یفوتہ ازاء السنۃ“ امام ابو حنیفہ سے حسن نے روایت کی کہ سعی کے واجب ہونے پر اور خرید و فروخت حرام ہونے میں منارہ کی اذان کا اعتبار ہے، اس لیے کہ اگر اذان عند المنبر کا انتظار کیا جائے گا تو سنت کی ادا فوت ہو جائے گی۔ اس عبارت سے اذانِ ثانی کے مسجد کے اندر منبر سے قریب ہونے پر استدلال ہرگز صحیح نہیں، کیوں کہ اس میں حضرت امام اعظم نے اذانِ اول سے سعی واجب اور بیع حرام کی ہے، اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ اگر نمازی اذانِ ثانی کا انتظار کرے گا تو سنت ترک ہو جائے گی، لہٰذا اذانِ اول ہی کو سن کر نمازِ جمعہ کے لیے چلا آئے، اذانِ ثانی کا انتظار نہ کرے، ورنہ سنت ترک ہو جائے گی۔، اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت امام اعظم کے نزدیک اذانِ ثانی بھی مسجد سے خارج ہی ہے، کیوں کہ اگر اذانِ ثانی مسجد کے اندر ہو اور منبر سے متصل ہو تو شہر والوں، محلہ والوں، بازار والوں کو اس کی آواز کیسے پہنچے گی، وہ تو اذانِ ثانی کا انتظار کریں گے، حالاں کہ حضرت امام اعظم منع فرماتے ہیں کہ اذانِ ثانی کا انتظار نہ کرو اور انتظار تب کیا جا سکتا ہے جب آواز پہنچے اور آواز جبھی پہنچے گی جب مسجد سے باہر ہو، لہٰذا اسی روایت سے ثابت ہوا کجہ حضرت امامِ اعظم کے نزدیک اذانِ ثانی مسجد سے باہر ہے۔ عند المنبر اس لیے کہا کہ منبر کے سامنے ہوتی ہے اور منارہ کی نسبت منبر سے قریب بھی ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ اذانِ ثانی مسجد سے باہر ہی سنت ہے اور حضرت امامِ اعظم کا یہی مسلک ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved