یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں: ایک زکات واجب ہونے کے لیے کیا چیزیں چاہیے اور کیا شرائط ہیں۔ دوسرے صدقۂ فطر وقربانی واجب ہونے کے لیے کیا نصاب ہے اور کیا شرائط ہیں۔ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، ان دونوں میں خلط کرنے کی وجہ سے کافی اشتباہ واقع ہوجاتا ہے، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی اور صدقۂ فطر صرف انھیں لوگوں پر واجب ہے جن پر زکات واجب ہے حالاں کہ ایسا نہیں۔ ایسی بہت سی صورتیں ہیں کہ زکات واجب نہیں اور صدقۂ فطر وقربانی واجب ہے۔ اب ان دونوں کو بغور سمجھیے:زکات واجب ہونے کے لیے یہ باتیں ضروری ہیں: وہ مالک نصاب ہو، اور یہ نصاب مال نامی ہو، قرض اور حوائج اصلیہ سے فارغ ہو اور اس پر پورا سال گزر چکا ہو۔ مال نامی صرف تین چیزیں ہیں: (۱) سونا، چاندی، (۲) مال تجارت، (۳) چرائی کے جانور۔ اب اگر کسی کے پاس ان تینوں چیزوں کے علاوہ کتنا ہی مال ہو ، کتنی ہی قیمت کا ہو اس پر زکات واجب نہیں مثلا کرایے کے مکانات ، کھیت، باغ وغیرہ۔ نوٹ سونے چاندی کے حکم میں ہے۔ اب اگر کسی کے پاس کرایے کے مکانات ، کھیت، باغ لاکھوں روپے کے ہوں تو ان پر زکات واجب نہیں لیکن اگر مکان کا کرایہ بقدر نصاب سال بھر جمع رہا تو ان روپیوں پر زکات واجب ہے۔ کھیت اور باغ سے جو غلہ پیدا ہوا ان پر عشر واجب ہے زکات واجب نہیں اگر چہ وہ کتنے ہی ہوں۔ رہ گیا قربانی اور صدقۂ فطر ان کے واجب ہونے کے لیے نصاب کا دین اور حوائج اصلیہ سے فارغ ہونا شرط ہے ، مال نامی ہونا شرط نہیں اور نہ سال گزرنا شرط ہے جو شخص عید الفطر کی صبح صادق کے وقت مالک نصاب ہوا، اس پر صدقۂ فطر واجب ہے، اسی طرح جو شخص ۱۰؍ ۱۱؍ ۱۲؍ ذو الحجہ کو کسی وقت مالک نصاب ہواس پر قربانی واجب ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس کرایے کے مکان ہوں جن کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو اس پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے ۔ ایک قول یہ ہے کہ مطلقا واجب ہے پیداوار کم ہو یا زیادہ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس پر جن کا نفقہ ہو ان سب کے لیے ایک مہینے کے نفقے کے لیے کافی ہو۔ تیسرا قول یہ ہے کہ سال بھر کے لیے کافی ہو تو واجب ہے، اسی تیسرے قول پر فتوی ہے۔ [رد المحتار میں قربانی واجب ہونے کے شرائط کے بیان میں ہے: ولو لہ عقار یستغلہ، ۱۔ فقیل تلزم لو قیمتہ نصابا، ۲۔ وقیل لو یدخل منہ قوت سنۃ تلزم، ۳۔ وقیل قوت شہر، فمتی فضل نصاب تلزمہ۔ (ج: ۹، ص: ۴۵۳، کتاب الأضحیۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) (مرتب غفر لہ)] زید کی جو مالی حالت آپ نے لکھی ہے اس کے پیش نظر زید پر زکات واجب نہیں کہ مال نامی اس کے پاس صرف دو ہزار ہے جو سونے چاندی میں سے کسی کے نصاب کو نہیں پہنچتا۔ دس بیگھہ کھیت کی قیمت اگرچہ کئی نصاب کے برابر ہے مگر یہ مال نامی نہیں اس لیے اس پر زکات واجب نہیں، البتہ اگر دس بیگھہ کھیت کی پیداوار اتنی ہو کہ جن کا نفقہ اس پر واجب ہے ان سب کے لیے سال بھر تک کافی ہو تو اس پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے۔ رہ گئے وہ زیورات جو بیوی کے ہیں ان کو زید کے مال میں شامل کر کے زکات واجب نہیں کی جاسکتی۔ بیوی اپنی چیزوں کی خود مالک مستقل ہے۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org