21 November, 2024


دارالاِفتاء


زید نے ایک دکان کھولی اور اس نے بکر سے پچاس ہزار روپیہ کا مال لیا، اور صرف چالیس ہزار روپیہ بر وقت ادا کیا، اور سال کے آخر میں اس کی د کان میں بیس ہزار روپے کا مال موجود ہے اور تیس ہزار روپیہ لوگوں کے پاس ہے جنھوں نے مال لےکر ابھی پیسے نہیں دیے ہیں، اور ادھر زید پر بکر کا دس ہزار روپیہ قرض بھی ہے تو زید کس حساب سے زکات دے؟ محمد امین کشمیری، متعلم جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی- ۱۶؍ جمادی الآخرہ ۱۴۱۲ھ

فتاویٰ #2604

زید پر جو قرض ہے اس کو وضع کر کے جتنی مالیت کا سامان موجود ہو اس کی زکات فورا ادا کرے۔( فتاوی ہندیہ میں ہے: وأما شرط وجوبها ... ومنها الفراغ عن الدين : قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى - : كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض وثمن المبيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة ، وسواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد ، وهو حال أو مؤجل، أو لله تعالى كدين الزكاة. [ج:۱،ص: ۱۹۰، كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسیرھا، دار الکتب العلمیۃ، بیروت] (مرتب غفر لہ)) صورت مذکورہ میں دس ہزار کی زکات سال گزرنے پر فورا ادا کردے، بقیہ جو لوگوں پر قرض ہے اگر اس کے وصول ہونے کی امید قوی ہے تو ان کی بھی زکات واجب ہے، خواہ ابھی ادا کرے خواہ قرض وصول ہونے کے بعد۔ واللہ تعالی اعلم ۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved